یوم عاشقاں کے نام مخرب الاخلاق حرکتوں کے خلاف شعور بیداری ناگزیر

حیدرآباد ۔ 6 ۔ فروری : ( سیاست نیوز ) : نوجوانوں کو جس طرح مختلف برائیوں سے روکنے کے لیے باضابطہ شعور بیداری مہم یا تحریک چلانے کی ضرورت پیش آنے لگی ہے اسی طرح ہر سال 14 فروری کی آمد سے قبل ’ یوم عاشقان ‘ کے خلاف بھی تحریک چلانے کی ضرورت پیش آنے لگی ہے ۔ مغربی تہذیب کے دلدادہ نوجوان 14 فروری کو ’ یوم عاشقاں ‘ کے طور پر مناتے ہوئے اپنی تہذیب کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور متعدد گروپوں کی جانب سے تیزی سے فروغ حاصل کررہی اس برائی کو روکنے کی کوشش کی جانے لگی ہے لیکن اس کا اثر نوجوانوں پر کس حد تک ہورہا ہے یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی ۔ ہندوستان بھر میں ’ یوم عاشقاں ‘ کے خلاف بعض مقامات پر نوجوانوں کو پر تشدد احتجاج کرتے ہوئے بھی دیکھا جارہا ہے اور بعض مقامات پر 14 فروری کو تفریحی مقامات میں موجود نوجوانوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ غرض یہ کہ اس مغربی تہذیب کی برائی کو مشرق میں پنپنے نہ دینے کے لیے مختلف طریقوں سے کوششیں کی جانے لگی ہیں اور ان سرگرمیوں کو انجام دینے والی تنظیموں کے ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ کوششیں ثمر آور ثابت ہورہی ہیں اور ان کی جانب سے شعور بیداری کے لیے کئے جانے والے اقدامات کے سبب نوجوانوں کے علاوہ ان کے والدین بھی چوکنا ہورہے ہیں ۔ ’ یوم عاشقاں ‘ کے نام پر بیشتر مقامات بالخصوص 5 ستارہ ہوٹلوں اور کلبس میں پروگرامس منعقد ہورہے ہیں لیکن اس کا اثر متوسط طبقہ پر نہیں ہے مگر متوسط طبقہ میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ امراء اگر اس برائی میں مبتلا ہورہے ہیں تو اسے کیوں برا نہیں سمجھا جارہا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برائی میں خواہ کوئی ملوث ہو وہ برائی کہلائے گی لیکن ’ یوم عاشقاں ‘ کے نام پر جو تباہی و بربادی کا سامان تیار کیا جارہا ہے وہ آئندہ نسلوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا

اسی لیے اس برائی کو روکنے کی پوری شد و مد سے کوششیں کی جانے لگی ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں سے جماعت اسلامی ، جی او آئی ، تنظیم بنت حرم ، مہر آرگنائزیشن نامی مسلم تنظیموں کی جانب سے ویلنٹائن ڈے کی مخرب الاخلاق حرکتوں کے متعلق شعور بیدار کرتے ہوئے نوجوانوں کو دین سے قریب لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ’ یوم عاشقاں ‘ جیسی لغویات میں مبتلا نوجوانوں کو دین سے واقف کرواتے ہوئے انہیں محرم و نا محرم کے اصولوں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مغرب کی اندھی تقلید میں ذہنی و فکری آزادی کے نام پر مچائی جانے والی اس تباہی کے جو اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ اس سے سبھی واقف ہیں ۔ اسی لیے ’ یوم عاشقاں ‘ کے بعد اس کی برائیوں پر لکچر بازی یا بیان بازی سے بہتر ہے کہ 14 فروری سے قبل ’ یوم عاشقاں ‘ کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرتے ہوئے نوجوانوں میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ اس برائی میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں ۔ علماء ، مشائخین ، خطیب و امام حضرات کے علاوہ دینی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داران و قائدین کو چاہئے کہ وہ ملت اسلامیہ کے نوجوانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے مشترکہ طور پر کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے انہیں ’ یوم عاشقاں ‘ جیسی برائی میں ملوث ہونے سے بچانے کی کوشش میں پہل کریں تاکہ نوجوان جو کہ اس مغربی برائی کو اپناتے ہوئے نہ صرف اپنے دینی و معاشرتی اقدار فراموش کررہے ہیں بلکہ خاندانوں کی ہتک کا باعث بن رہے ہیں انہیں روکا جاسکے ۔ نوجوانوں میں اگر اس بات کا احساس پیدا کردیا جائے کہ ان کی حرکات و سکنات نہ صرف ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان کی حرکات ان کے خاندان اور مذہب کی رسوائی کا باعث بھی بنتے ہیں تو ایسی صورت میں غیرت مند نوجوان کئی ایسے دانستہ و نادانستہ گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ ہوسکتے ہیں جو ان کی دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب بنیں گے ۔۔