محمد عبدالقادر
ہندوستان اگرچہ 15 اگست 1947 ء کو برطانوی رتسلط سے آزاد ہوگیا تھا لیکن 26 جنوری 1950 ء کو ہندوستانی تاریخ میں اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ اس دن ملکی آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ، ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر ریپبلکن یونٹ بن گیا ۔ اس لئے آئینی نفا ذ کے دن کے طور پر 26 جنوری کو بطور یادگار منانے کیلئے طئے کیا گیا ۔ یہ دن آزاد اور جمہوریہ ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے لہذا اس دن ہمارا ملک ’’ایک جمہوریہ ‘‘ ہونے کے ناطے اسے بطور تقریب مناتا ہے اور ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کا ہر ممکن تحفظ کریں گے ، ساتھ ہی اس کی جمہوری قدروں کو بھی دھکہ نہیں لگنے دیں گے ۔
آبادی کے لحاظ سے ہندوستان ، دنیا کی سب سے بڑی پارلیمنٹری ، غیر مذہبی جمہوریت (Secular Democracy) ہے۔ اس کے دستور کی کچھ اہم خصوصیات ہیں۔ آئین ہند نے یہاں کے شہریوں کو خود اپنی حکومت منتخب کرنے کیلئے خود مختار بنایا ہے اورہندوستانی عوام کو سرچشمہ اقتدار اختیار ماناہے جسے صاف الفاظ میں دستور کی تمہید میں بیان کردیا گیا ہے ۔
دستور ہند میں تمام باشندے بلا تفریق مذہب و ملت ’’ایک مشترکہ جمہوریہ ‘‘ میں پرو دیئے گئے ہیں۔ آئین میں مذہب کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ ملک ، مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا لیکن ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیںکیا جائے گا ۔ دستور کی 42 ویں ترمیم کی رو سے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے جہاں مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کوشہریت کے حقوق سے محروم نہیںکیا جاسکتا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پورا موقع مل سکتا ہے ۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے، ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب حاصل ہے ۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں اس کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں ، اپنی تہذیب ، تمدن ، زبان کو قائم رکھیںاور اپنے مذہب کی تبلیغ کریں۔ اس غرض کیلئے اپنی منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا جو کسی مذ ہب کی تبلیغ و اشاعت پر خرچ کی جائے ۔ دوسرے لفظوں میں اوقاف ، مساجد ، مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جاسکتا۔
اسی طرح شخصی آزادی کا تحفظ ، متعدد دفعات کے ذریعہ کیا گیا ہے ، کسی شخص کو صرف اسی وقت سزا دی جاسکتی ہے کہ لگایا گیا الزام ، قانون کی نگاہ میں جرم بھی ہو، چنانچہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے اور صفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی۔
یہ اصول ایسے نمونے پیش کرتے ہیں کہ جن پر عمل کرکے جبکہ زبردست قوت نافذہ کی بھی فراوانی ہو، ایک منظم سماج کی بنیاد پڑسکتی ہے ۔ دستور کی بالادستی ، قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کے فروغ کیلئے یہ اصول کافی ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ان قوانین کا کتنا احترام کیا جارہا ہے ؟ قانون کی بالادستی ہے یا دستور کی پامالی ہورہی ہے ؟ قانون کی حکمرانی ہے یا قانون بے چارہ ؟ ۔ چنانچہ آزاد ہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو داغدار کرنا ، پامال کرنا اور اقلیتوں کا استحصال ایک مشغلہ سا بن گیا ہے ۔ قوانین کی دھجیاں اڑانے والے، دستور کی پامالی کرنے والے اگر اب تک قانون کی زدمیں نہیں آسکے تو یہ جمہوریت کی شکست ہے ۔ اس کی ایک اہم مثال اس جمہوری ملک میں جہاں مذہبی مقام کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات اس کے دستور میں ہو اور اس کو پامال کرنے والوں کو مجرم قرار دیا گیا ہو ، بابری مسجد کے خون میں ملوث عناصر کا ’’آزادانہ گھومنا اور قانونی زو میں اب تک نہ آنا ‘‘ ہے۔
اسی طرح مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہ ہونے کی بات دستور میں کہی گئی ہے لیکن ریزرویشن کے مسئلہ پرمرکزی حکومت یہ دفاع کرتی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں مل سکتا، حالانکہ اگر کوئی ہندو دلت ، مسلمان ہوجائے تو اب وہ ریزرویشن کا حق دار نہیں ہوگا۔ قابل توجہ ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کا یہ بہانہ تو ڈھونڈ لیا کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جائے گا۔
کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق ہوگی لیکن یہ اہل سیاست اس کا جواب نہیں دے سکتے کہ ہندو دولت کے مسلمان ہوجانے کی صورت میں اسے ریزرویشن سے محروم کرنا کیا آئین کی پامالی نہیں ہے ۔ یہ مذہب کی بنیاد پر وہ تفریق ہے جس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے ۔
اس جمہوری ملک میں قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب کردہ لیڈروں کو اس لئے دیا گیا تھا تاکہ قانون سازی ، پالیسی سازی سے عوام کیلئے آسانیاں پیدا ہوں ، لوگ آسانی کے ساتھ جی سکیں ، نہ کہ جان بوجھ کر منفی سوچ کے ساتھ ایسے قانون لائے جائیں جو عوام کیلئے اور بالخصوص اقلیتوںکیلئے مشکلات کھڑی کریں۔ جمہوریت کے مندر میں ہونے والے واقعات اور گزشتہ چند برسوں میں منفی ذہنیت کے ساتھ بنائے گئے قانون اور پارلیمنٹ میں لائے گئے بل شاید یہی بتاناچاہتے ہیں اب قانون سازی کے اختیارات کوا یک مخصوص ذہنیت کے ساتھ اقلیتوں کیلئے درپردہ مشکلات کھڑی کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا ۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ (1) آر ٹی ای (مفت اور لازمی حصول تعلیم بچوں کا قانونی حق) نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس ایکٹ میں تعلیمی اداروں کو جن اصولوں کا پابند بنایا گیا تھا ، ان کے تحت مدارس ، پاٹھ شالاؤں کو چلانے کی قانوناً کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ اس طرح دستور میں اقلیتوں کو اپنے مذہبی ادارے چلانے سے متعلق دیئے گئے حق کو بہت خوبصورت عنوان کے ذریعہ پامال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ تو خیر تھا کہ ان کی اس ذہنیت کو بھانپ لیا گیا اور مرکزی وزارت تعلیم کو اس ایکٹ میں ترمیم پر مجبور کراتے ہوئے مذہبی اداروں کو اس سے مستثنیٰ کرایا گیا ۔ اسی طرح ڈائرکٹ ٹیکسیز کوڈ کے ذریعہ او قاف کی جائیداد جس کو دستور نے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا ، کو ٹیکس کے تحت لانے کیلئے راہیں ڈھونڈی گئیں اور آ ئین کی بنیادی روح سے متصادم بل لاکر ایک خاص ذہنیت کا ثبوت پیش کیا گیا ۔
اسی طرح ٹاڈا ، پو ٹا جیسے قانون لاکر مسلمانوں کے پڑھے لکھے طبقہ کو ٹارگیٹ بنایا گیا اور اس پر میڈیا ٹرائل کا ایک منظم ڈھنگ سے سلسلہ شروع کیا گیا ۔ جب کوئی مسلمان گرفتار ہوتا ہے تو عدلیہ میں اس کی پیشی سے پہلے ہی میڈیا ، جو ہمارا مین اسٹریم اورجمہوریت کا چوتھا ستون کہلاتا ہے ، اسے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کی شکل میں پیش کرتاہے اور بتاتا ہے کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن جو دہشت گرد گرفتار ہوتا ہے ، وہ مسلمان ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ا یک حقیقت ہے کہ اس الزام میں گرفتار ہونے والے تو سارے مسلمان نہیں ہوتے البتہ ’’بری ہونے والے مسلمان ‘’ ہوتے ہیں لیکن ان خاطی افسران پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی جو ان کی عمر عزیز کے بیشتر حصوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے برباد کر ڈالتے ہیں اور حیرتناک بات تو یہ ہے کہ ان دھماکوں کے حوالہ سے حوالات میں کئی نوجوان اب تک بند ہیں، جن میں زعفرانی دہشت گردی کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت ہیں۔
مسلمانوں کی گرفتاریوں کا جو سلسلہ جاری ہے ، اس حوالہ سے ان کی جو صورتحال ہے اس کا اندازہ ستمبر 2012 ء میں جاری ’’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘‘ (این سی آر بی) کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پورے ملک میں کل 3,72,726 قیدیوں میں 75,053 یعنی (20.12%) فیصد مسلمان ہیں۔ نیز جن 1,28,592 قیدیوں کو سزا سنائی جاچکی ہے ، ان میں 22,943 مسلمان قیدی ہیں جو اپنی آبادی کے تناسب سے 17.8 فیصد ہیں۔ ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ کے مطابق مغربی بنگال میں 45 فیصد قیدی مسلمان ہیں، مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی آبادی 10 فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ جیلوں میں یہ 36 فیصد ہیں۔ اسی طرح اترپردیش میں ہر چوتھا قیدی مسلمان ہے، گجرات میں مسلمانوں کی آبادی 6 فیصدہے جبکہ جیلوں میں یہ 22.4 فیصد ہیں ۔ دہلی میں مسلم آبادی 12 فیصد ہے اور جیلوں میں یہ 23 فیصد ہیں۔ عالی پور سنٹرل جیل کے 1222 قیدیوں میں سے 530 مسلمان ہیں، غازی آباد جیل میں 2200 قیدیوں میں 720 مسلمان ہیں۔ اسی طرح جموں و کشمیر ، مدھیہ پردیش ، پانڈیچری اور سکم سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں ز یادہ جیلوں میں ہیں ۔ دوسری طرف یہ دوہرا پیمانہ بھی قابل توجہ ہے کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 16.6 لاکھ پولیس فورسس میں صرف ایک لاکھ 8 ہزار مسلمان ہیں جو کہ ان کی آبادی کا صرف 6 فیصد ہے اسی طرح قومی دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں کی کل آبادی 12 فیصد ہے جبکہ پو لیس فور سس میں صرف 2 فیصد مسلمان ہیں، یہ وہ نظری پالیسی ، یہ دوہرا پیمانہ ملک کیلئے فائدہ مند ہے نہ جمہوریت کی بقاء کیلئے سود مند ۔
اسی منفی نظریہ کی ایک مثال UAPA ترمیمی قانون بھی ہے ۔ ٹاڈا اور پوٹا کی طرح مسلمانوں کے خلاف استعمال کئے جانے کے خدشہ کے پیش نظر مسلم ممبران پارلیمنٹ نے اس قانون کی زبردست مخالفت بھی کی تھی ۔ ایوان بالا میں ایک مخصوص ذہنیت اس کو منظور کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں کھانے کا وقفہ بھی ملتوی کرادیا گیا اور ترمیمی بل کو بالآخر پاس کرا ہی دیا گیا ۔ دوسری طرف گزشتہ پارلیمانی سیشن میں انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل جسے کابینہ کی منظوری بھی مل چکی تھی ، کے تعلق سے مبینہ طور پر سیاسی سودا کیا گیا۔ پہلے تو ابتدائی دو تین دن ایوان میں کارروائی نہیں ہوسکی ۔ ہنگاموں میں وقت کو گزارا گیا ، پھر متعینہ وقت سے پہلے ہی دو دن قبل سیشن ملتوی کردیا گیا ۔ UAPA ترمیمی قانون اور انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کے درمیان جو واضح فرق نظر آیا وہ جمہوریت کو شرمسار کرنے کیلئے کافی ہے کہ مسلم کش قانون کیلئے تو اتنی جلدی تھی کہ کھانے کا وقفہ بھی ملتوی ہوگیا لیکن اقلیتوں کو تحفظ دینے والے بل کی بات آئی تو دو دن قبل ہی پارلیمانی اجلاس ختم کردیا گیا ۔ یہی دوہرا نظریہ اور دوہری پالیسی جمہوریت کو داغدار کرتی ہے اور پردہ کے پیچھے موجود یہ متعصب ذہنیت وطن عزیز میں جمہوریت کی بقاء کیلئے خطرناک نظر آتی ہے ۔
ان سب کے علاوہ دستور سازوں کے ہاتھوں جمہوری قدروں کی پامالی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پورا کارپوریشن ہنگامہ آرائی کی نذر ہوجاتا ہے ۔ مخالفت برائے مخالفت روز کی بات ہے ، پالیسیاں بنانے کی جگہ ’’پارلیمنٹ‘‘ میں میدان جنگ کا نظارہ ہوتا ہے ۔ ان حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت پسندی کا نعرہ ایک سیاسی ضرورت ہے ، جمہوریت ہمارے خون میں نہیں ہے ، ہمارے ضمیر میں نہیں ہے ۔ اس لئے یوم جمہوریہ کو یوم احتساب کے طور پر منانے کی ضرورت ہے اور جمہوریہ ہند کو ایک ’’مثالی جمہوری ملک ‘‘ بنانے کیلئے مثبت فکر کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جمہوری قدروں کو فروغ دیا جائے تبھی ’’جمہوریہ ہند‘‘ کا وقار بلند ہوگا ، ورنہ جمہوریت پسند اور سیکولر ہونے کا دعویٰ بے معنی ہوگا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاء قائم کرنے کا تصور ایک خواب ہی ہوگا جس کے نتیجہ میں تعصب کے عفریت اسی طرح ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کا خون پیتے رہیں گے ۔
abdulkhader1137@gmail.com