خود فریبی کی سزا خود ہے محبت میری
نہ تجھے میں نے بُھلایا نہ تجھے یاد کیا
یوم جمہوریہ ہند
آج یوم جمہوریہ ہند ہے۔ ہم اپنی جمہوریت کے 68 سال مکمل کرنے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہے ۔ ساری دنیا میں ہندوستانی جمہوریت کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان کی جمہوریت میں اس کے عوام انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ عوام کے ذریعہ ہی اس جمہوریت کو استحکام بخشا جاتا ہے ۔ جمہوری عمل میں یقین رکھتے ہوئے ملک کے عوام وقفہ وقفہ سے پارلیمنٹ کیلئے ‘ اسمبلی کیلئے یا پھر بلدیات کیلئے اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری عمل میں اپنے کامل یقین کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہندوستان کی جمہوریت کو مختلف گوشوں سے خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ جمہوری عمل میں ہی اس قدر بدعنوانیاں اور کرپٹ عوامل عام ہوگئے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہماری جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔ آج ہندوستان میں کوئی انتخاب ایسا نہیں کہا جاسکتا جو شفاف اورکسی طرح کی بدعنوانی سے پاک کہا جاسکتا ہو۔ جمہوری عمل کے ذریعہ ملک کے اعلی ترین اور دستوری عہدوں پر فائز ہونے والے افراد اور ملک کے قانون ساز اداروں میں جگہ پانے والے افراد ہی اس ملک میں اسی جمہوری عمل کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے انتخاب کو یقینی بنانے کیلئے طاقت اور پیسے کا استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو شکست سے دوچار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ بدعنوانیوں کو انہیں گوشوں سے ہوا دی جاتی ہے اور اسی کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوسروں کو جمہوریت کا درس دیا جاتا ہے ۔ اسی جمہوریت میں یقین رکھنے والے عوام کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور عوام کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے انہیں فراموش کردیا جا رہا ہے ۔ حکومتیں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد اپنے عزائم اورا یجنڈہ کی تکمیل میں جٹ جاتی ہیں ۔ وہ یہ خود طئے کرنے لگی ہیں کہ ملک کے عوام کیا کھائیں گے ۔ عوام کیا پہنیں گے ۔ عوام کیا دیکھیں گے اور عوام کیا پہنیں گے ۔ جمہوری عمل کی دھجیاں اڑا کر کرسیوں تک پہونچنے والے ہی یہ فیصلہ کرنے لگے ہیں کہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں چلے گی بلکہ جو فرقہ پرست عناصر چاہتے ہیں وہی ہوگا ۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں عوام کو حکومتوں کے ایجنڈہ کا پابند کیا جانے لگا ہے ۔ جمہوری عمل کے معنی یہ ہیں کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومتیں عوام کے مفاد کیلئے کام کرینگی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ یہاں حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے دستور کو بدلنے کی باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت میں شامل عناصر اس ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو ملک چھوڑ دینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حکومت کا حصہ رہنے والے افراد دستور کی مسلمہ حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کرر ہے ہیں اور پوری دھڑلے سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس ملک میں جو اکثریت چاہے گی وہی ہوگا ۔ یہ ہماری ملک کے جمہوری اور سکیولر اقدار کے مغائر عمل ہے اور اسی کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ عوام کے مفادات کا خیال رکھے بغیر حکومتیں اپنے استحکام کیلئے عوام کو اپنی مرضی کے قوانین پر عمل کیلئے مجبور کر رہی ہیں۔ عوام کی رائے کو اہمیت دینے کی بجائے انہیں حکومتوں اور فرقہ پرستوں کے ایجنڈوں کی تکمیل کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔ چند مٹھی بھر شرپسندوں کو میڈیا کے ذریعہ فروغ دیتے ہوئے سارے ملک کے عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جا رہا ہے ۔ سماج کے دو بڑے طبقات کے مابین فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی جار ہی ہے ۔ حکومت کے ایجنڈہ اور اس کے منصوبوں سے اختلاف کرنے والوں کو ملک کا دشمن اور قوم مخالف قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حب الوطنی اور ملک سے وفاداری کے سرٹیفیکٹ وہ لوگ بانٹنے لگے ہیں جن کی خو دحب الوطنی مشکوک ہے ۔
ملک میں فرقہ پرست عناصر کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے ۔ خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے ۔قتل و غارت گری عام ہوتی جا رہی ہے ۔ جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ملک میں روزگار کے مسائل ہیں ‘ نوجوانوں میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے ۔ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ہماری حکومتیں یہ طئے کرنے میں مصروف ہیں کہ ملک میں کونسا جانور مقدس ہے ۔ کس کی پوجا ہونی چاہئے اور کس کو ذبح کرنے پر جیل بھیج دیا جائیگا ۔ سرکاری عمارتوں کا رنگ کیا ہوگا ۔ ملک کے عوام یوگا کرینگے یا سوریہ نمسکار پر توجہ دی جائیگی ۔ جن امور اور مسائل پر حکومتیں کام کر رہی ہیں ان کا ملک اور قوم کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنت نشان ہندوستان کی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے تحفظ اور اس کے فروغ کے ایجنڈہ کو ترجیح دی جائے ۔ حکومت کا یہ اولین فریضہ ہے اور اسی کے ذریعہ جمہوریت کا فروغ ممکن ہوسکتا ہے ۔