سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
یوم جمہوریہ اور عوام
ہندوستانی شہریوں کو ہر گذرتے دنوں کے ساتھ دہشت گردی کے نئے خطرات سے خوف زدہ کرنے والے واقعات کے درمیان یوم جمہوریہ یا جشن جمہوریہ کی طویل دم بخود کرنے والے پریڈ فوجی طاقت کے شاندار مظاہرہ کا مشاہدہ کرنا پڑتا ہے تو یہ ملک کی یکسوئی کی سنگین صورتحال کو عیاں کرتا ہے۔ 26 جنوری یوم جمہوریہ سے قبل غیرمعمولی سکیورٹی انتظامات کے ذریعہ بھی عوام کو خطرناک دہشت گرد حملوں کے امکانات کی جانب توجہ دلائی جاتی ہے۔ اب تک ہندوستان کو اس کے پڑوسی ملک پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں سے خطرات کا حق تھے لیکن اس مرتبہ آئی ایس یا دولت اسلامیہ یا داعش کے خطرات ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ گزشتہ سال یوم جمہوریہ تقریب کے موقع پر صدر امریکہ بارک اوباما اور ان کی اہلیہ میشل اوباما مہمان خصوصی تھیں۔ اس مرتبہ صدر فرانس فرینکوئس اولاند اور دیگر کئی اہم شخصیتیں مہمان خصوصی ہیں۔ ہر سال کی طرح چوکسی پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے گزشتہ چند دنوں کے دوران 18 مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔ اب بھی اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ پیرس دہشت گرد حملوں کی طرح حملے ہوسکتے ہیں۔ ملک میں داعش اور جیش محمد کے حامیوں کی موجودگی کی اطلاع رکھنے والی انٹلیجنس ایجنسیوں نے امکانی خطرات سے نمٹنے کی تیاری کی ہے۔ ہمارے ملک کی انٹلیجنس اور سکیورٹی ایجنسیاں کی مشترکہ کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک پرامن جمہوری ہندوستان ترقی کی سمت گامزن ہے۔ اس پرامن جمہوری ملک کو دہشت گردوں سے پاک بنانے کی کوشش میں اگر بے قصور نوجوانوں کو ماخوذ کیا جائے تو پھر جمہوریت اور ان کا بنیادی مقصد مشکوک بن جاتا ہے۔ ہندوستان میں قومی سلامتی کے مسئلہ کو لے کر برسراقتدار حکومت کی پالیسی کے تابع بنایا جائے تو مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جو حکومت ملک سے کسی خاص طبقہ کے ساتھ انتقام میں الجھ جاتی ہے تو دہشت گردی کا نیا چہرہ بھی عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام کو اپنے حافظہ پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ ماضی میں بھی جب این ڈی اے کی حکومت تھی، اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم نے پڑوسی ملک پاکستان کی آئی ایس آئی کے حوالے سے ہندوستانی سکیورٹی کو لاحق خطرات سے عوام کے ذہنوں کو خوف زدہ کردیا تھا۔ اگرچیکہ دہشت گرد کے واقعات اس ملک کے لئے سنگین خطرہ ہیں لیکن ان سے نمٹنے کے طور طریقوں اور دہشت گردوں کی مذہبی شناخت کے حوالے کی جاننے والی کارروائیوں سے ایک نفرت انگیز ماحول کو بڑھاوا دیاجاکر صورتحال کو نازک بنایا جاتا ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد ہندوستان کی سکیورٹی پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت اپنی خامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جب بے قصور مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے تو یہ حکمرانی کی بدترین انتقامی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں یوم جمہوریہ منانے والے عوام کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کا احتساب کریں۔ اپوزیشن کے طور پر جو پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں، انہیں عوام کے جمہوری حق سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات کی فکر ہوتی ہے۔ اس لئے حکومت ملک کے معاشرہ کو خوف زدہ کرنے والے واقعات سے نمٹنے پر دھیان کم اور ایک گوشے یا سماج کے ایک طبقہ کو بدنام کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ حکومت فیصلہ سازی میں مفلوج ہوکر سکیورٹی انتظامات کو معطل رکھتی ہے تو پٹھان کوٹ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن پر شبہات کا تسلسل ختم نہیں ہوتا۔ یوم جمہوریہ منانے کے ساتھ آج کا دن جمہوریت سے حقیقی وابستگی کے تقاضوں کی بھی یاد دلاتا ہے۔ جب ملک کے تعلیمی اداروں کو دلت طالب علموں کے مستقبل پر روک لگانے کے اقدامات ہوتے ہیں تو طالب علم کو خودکشی کے لئے مجبور کرنے حکومت یا اس کے وزراء اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہیں تو پھر جمہوریت پسندی کا مفہوم بکھر جائے تو اس کی کس کو پرواہ ہوسکتی ہے۔ جن عناصر نے ماضی میں فرقہ پرستی دہشت گردی کے نام پر ہاتھ مضبوط کرلیتے تھے، یہی عناصر ہندوستانی عوام کی جمہوری زندگی کو خطرناک بنانے کے درپے ہیں۔ ایسے میں جمہوری عمل کے احیاء کے لئے عوام کو ہی اُٹھ کھڑے ہونا پڑے گا۔ ہندوستان کی جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لئے منتخب حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتا عوام کی ذمہ داری ہے۔ ہندوستان کے موجودہ حالات کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا اور قوم دشمن سازشوں کو ناکام بنانا اس وقت ممکن ہے جب حکمراں طبقہ غیرجانبدارانہ ہے۔