یوم تاسیس تلنگانہ پر ایوارڈ ، ایک نام پر شعراء و ادیب میں غلط فہمی

مقامی سیاسی جماعت کے ترجمان میں غلط نیوز سے الجھن ، حقیقی منتخب شخص کا تعلق آندھرا سے ، تلنگانہ کے افراد کی تنقید
حیدرآباد ۔ یکم جون (سیاست نیوز) یوم تاسیس تلنگانہ کے موقع پر حکومت نے اردو کی جن شخصیتوں کو ایوارڈس کا اعلان کیا ، ان میں ایک نام کے بارے میں غلط فہمی کے سبب غیر ایوارڈ یافتہ شخصیت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ ناموں میں وضاحت نہ ہونے کے سبب ایک دوسری شخصیت کو لوک ایوارڈ کی مبارکباد دینے لگے اور انہوں نے مبارکباد بھی قبول کرلی  لیکن حکومت کی جانب سے انہیں کوئی فون نہیں آیا جس میں ایوارڈ دیئے جانے کی اطلاع دی گئی ہو۔ اس طرح تقریباً 24 گھنٹے بعد حقیقی ایوارڈ یافتہ شخص کا انکشاف ہوا اور حکومت نے انہیں ایوارڈ دیئے جانے کی اطلاع دی۔ اردو ادب میں دو ایوارڈس کا اعلان کیا گیا جن میں ایک عبدالرحمن خاں حیدرآباد اور دوسرے مین ابراہیم حامی ، حیدرآباد شامل ہیں۔ عبدالرحمن خاں نامی کوئی شاعر یا ادیب نہ ہونے کے سبب شعرا اور ادیبوں نے اسے نام کی غلطی تصور کرتے ہوئے عبدالرحیم خاں (اردو ہال حمایت نگر) کو مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع کردیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی جماعت کے ترجمان اردو اخبار نے عبدالرحیم خاں کی تصویر شائع کردی، جس سے ایوارڈ دیئے جانے کا اور بھی یقین ہوگیا اور صبح سے رحیم خاں کو مبارکبادیوں کا سلسلہ تیز ہوگیا۔ دوپہر میں یہ حقیقت منظر عام پر آئی کہ دراصل عبدالرحمن خاں ، ایک شاعر کا اصلی نام ہے اور وہ ناصر کرنولی ہیں۔ ایک طرف رحیم خاں حکومت کی جانب سے اطلاع کے انتظار میں تھے تو دوسری طرف حکومت کے نمائندہ نے ناصر کرنولی کو ایوارڈ دیئے جانے کی اطلاع دی۔ اس طرح نام میں غلطی کے اندیشے اور ایک اردو اخبار میں غلط تصویر شائع کرنے سے بیک وقت دو افراد کو الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔ ناصر کرنولی جنہیں پہلے ہی سے ایوارڈ ملنے کی اطلاع تھی ، وہ خود بھی اخبار میں غلط تصویر کے اشاعت سے پریشان ہوگئے۔ آخر کار آج دوپہر میں حقیقی ایوارڈ یافتہ شخص کا انکشاف ہوا۔ بعض شعراء اور ادیبوں نے کرنول سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو ایوارڈ دیئے جانے کی مخالفت کی ہے۔ یہ ایوارڈ چونکہ تلنگانہ کا ہے ، لہذا اس پر تلنگانا کے شعراء و ادیبوں کا حق ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایوارڈ کی فہرست میں جان بوجھ کر شاعر کا اصلی نام لکھا گیا تاکہ کرنول کا ذکر نہ آئے۔ حکومت کی حلیف جماعت کی سفارش پر ریاستی اور ضلعی سطح کے ایوارڈس طئے کئے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی جماعت نے چار نام پیش کیئے تھے ، جن میں سے تین کو چیف منسٹر نے منظوری دی اور ایک نام اپنی مرضی کا شامل کیا ۔