پناہ گزینوں کے گروپس میں پوشیدہ دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجو ؤںکا روزآنہ یورپ میں داخلہ
لندن۔26جولائی ( سیاست ڈاٹ کام ) خوفناک دولت اسلامیہ کے عسکریت پسند پناہ چاہنے والے مایوس افراد کی کشتیوں میں سوار ہوکر پوشیدہ طور پر یورپ میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے یوروپی ممالک کو امکانی دہشت گرد حملوں کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی ایک رپورٹ کے بموجب دولت اسلامیہ کے قاتل جنگجو ایک ہزار تاریکین وطن میں مل کر جو پانچ میل کا خوفناک سمندری سفر طئے کر کے ترکی کے ساحل پر اور یونان کے ساحل پر اترے تھے‘ یورپ میں داخل ہوگئے ہیں ۔ روزنامہ ’’ دی مرر‘‘ کی اطلاع کے بموجب دولت اسلامیہ کے جنگجو آسانی سے یونان کی سرزمین پر پہنچ رہے ہیں اور جہاں سے وہ مختلف ممالک منتقل ہورہے ہیں ۔ یہ ایک مسلسل اور زبردست مسئلہ ہے ۔ ساحلی جزیرہ کے ایک عہدیدار نے روزنامہ سے کہا کہ اسمگلرس نے کئی افراد کو چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ خطیر رقمی معاوضہ کے بدلے انہیں یورپ منتقل کیا ہے ۔ حکومت ترکی کو ان افراد کی آمد روکنے کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ ایک بار وہ یورپ پہنچ جائیں تو ان کو تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ پولیس فورس کی تعداد بہت کم ہے اور روزانہ تقریباً تارکین وطن یورپ پہنچ رہے ہیں ۔ چنانچہ صورتحال بے قابو ہوگئی ہے اور یورپ کو مدد کی ضرورت ہے ۔ دولت اسلامیہ القاعدہ سے الگ ہونے والا ایک گروپ ہے اور اس نے سینکڑوں مربع میل اراضی پر عراق اور شام میں قبضہ کر کے اس علاقہ میں خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کردیا ہے ۔ یوروپی یونین کے عہدیداروں کے بموجب شام میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں میں پانچ ہزار تا چھ ہزار یوروپی باشندے بھی شامل ہیں ۔ صیانتی عہدیداروں کو خوف ہے کہ سخت گیر عسکریت پسندوں کے ساتھ اُن کے اپنے ممالک میں بھی حملوں کا خطرہ ہے ۔ یہ ایک پُرکشش راستہ ہے جس کے ذریعہ دولت اسلامیہ اپنے لوگوں کو شام سے یورپ روانہ کررہی ہے ۔ صیانتی ماہر کرنل رچرڈ کیمپ نے جو قبل ازیں سرکاری سراغ رسانی کمیٹی میں کام کرچکے ہیں کہا کہ کئی افراد لی شوز جارہے ہیں اور یہاں سے یورپ کے مختلف ممالک منتقل ہورہے ہیں ۔
جنگجوؤں کے چھوٹے چھوٹے گروپ مبینہ پناہ گزینوں کے بڑے گروپس میں چھپ جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس خطرے کا انسداد ضروری ہے ۔ جہادی گروپوں نے حال ہی میں سعودی عرب ‘ کویت ‘ تیونس اور یمن میں بھی مہلک حملے کئے ہیں ۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے روبرو دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں نے اپنے جسم پر پرچم لپیٹ کر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا ۔