صدر امریکہ کو مبالغہ آرائی نہیں کرنا چاہئے، رکن مقننہ پیٹر ٹنگ کا ردعمل
واشنگٹن۔ 30 جون (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ براک اوباما نے انتباہ دیا کہ جنگ لڑنے کے سخت گیر شائق یوروپی شہریوں نے شام اور عراق کے جہاد میں شرکت اختیار کرلی ہے اور ان کے پاسپورٹس کی بناء پر امریکہ کے لئے ایک خطرہ بن گئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ویزا کے بغیر کسی بھی ملک میں داخل ہوسکتے ہیں۔ تقریباً 800 فرانسیسی شہری شام کی خانہ جنگی میں جہاد کرچکے ہیں۔ تازہ ترین تخمینوں کے بموجب بلجیم کا بیان ہے کہ اس کے 200 شہری شام کی خانہ جنگی میں جہاد میں شریک ہیں۔ برطانوی شہریوں کی تعداد حکومت برطانیہ کے بموجب 400 ہے۔ فرانس، بلجیم اور برطانیہ کے پاسپورٹ رکھنے والوں کے لئے دیگر یوروپی ممالک کے کئی شہری جہاد میں شامل ہیں اور کسی ویزا کے بغیر امریکہ آسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عملی اعتبار سے ان کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جائے گی۔ یوروپی شہری عسکریت پسندوں کے ہمدرد ہیں۔ اسی وجہ سے وہ شام کا سفر کرچکے ہیں اور امکان ہے کہ اب عراق بھی جائیں گے۔ وہ سخت گیر جنگ کے شائق ہیں۔ صدر امریکہ براک اوباما نے ایک انٹرویو میں جسے آج ABC نے نشر کیا، انتباہ دیا ہے کہ یوروپ کے ایسے شہری امریکہ کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کی روک تھام کیلئے امریکی محکمہ سراغ رسانی کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ صدر امریکہ نے کہا کہ امریکہ اپنی نگرانی، مفاہمت اور سراغ رسانی کو بہتر بناچکا ہے۔ خصوصی افواج اپنا کام کررہی ہیں اور کئی بار ایسی تنظیموں پر دھاوے کرچکی ہیں جن سے امریکہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یوروپی شہریوں کے بارے میں جو عسکریت پسند سرگرمی میں حصہ لینے کے بعد واپس آرہے ہوں، اندیشے پائے جاتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ مہدی آرمی سے وابستہ رہ چکے ہوں، ایک فرانسیسی نژاد الجیریائی شہری شام میں بنیاد پرستوں دوش بہ دوش ایک سال سے زیادہ وقت جنگ کرچکا ہے۔ مبینہ طور پر اس نے بروسیلز کے یہودی میوزیم میں 24 مئی کو فائرنگ کرتے ہوئے 4 افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ اوباما کے انٹرویو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ری پبلیکن رکن مقننہ پیٹر ٹنگ نے کہا کہ صدر کو اتنی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ شام ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نہ صرف ہزاروں یوروپی شہری ایسے ہیں جو ویزا کے بغیر امریکہ میں داخل ہوسکتے ہیں اور فی الحال وہ شام کا سفر کررہے ہیں، لیکن 100 سے زیادہ امریکی شہری اب بھی شام میں موجود ہیں۔