یمن کی الحدیدہ بندرگاہ پر حملہ امریکہ کے زیر غور

واشنگٹن ۔ 28 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) امریکی ذمہ داران نے انکشاف کیا ہیکہ آئندہ ہفتے وہائٹ ہاؤس میں ایک اجلاس منعقد ہوگا۔ اجلاس میں امریکی حکومت کے ارکان شریک ہو کر یمن کی صورتحال اور عرب اتحاد کی اْس درخواست کو زیر بحث لائیں گے جس میں یمن مین الحدیدہ کی بندرگاہ پر کنٹرول کیلئے معرکے میں شریک ہونے کے واسطے کہا گیا ہے۔اس کارروائی کا پس منظر گزشتہ برس سے تعلق رکھتا ہے جب بارک اوباما کے زیر سربراہی امریکی انتظامیہ کو ایک منصوبہ پیش کیا گیا۔ منصوبے میں بندرگاہ اور اس کے قریبی شہر پر حملہ ، ساحلی علاقوں سے حوثیوں اور انکے حلیفوں کو باہر نکالے جانے اور پھر ان عناصر کو بحر احمر میں جہاز رانی کیلئے خطرہ بننے سے روکا جانا شامل تھا۔ علاوہ ازیں حوثیوں کو ایرانی عسکری امداد حاصل کرنے سے روکے جانے اور حوثیوں اور معزول صالح کی ملیشیاؤں کے زیر قبضہ علاقوں میں ایرانی پاسداران انقلاب اور لبنانی حزب اللہ کے ارکان کی اسمگلنگ روکے جانے پر بھی زور دیا گیا تھا۔ امریکی انتظامیہ بالخصوص باراک اوباما نے مںصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسے یمن میں امریکی فوجیوں کی براہ راست مداخلت قرار دیا تھا۔
سابق امریکی صدر کا اس بات پر زور رہا کہ یمنی باغیوں کے خلاف عسکری آپریشن روک کر بحران کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹرمپ کے نزدیک ایران سے متعلق وہ ہی موقف ہے جو خلیج تعاون کونسل کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور امارات کا ہے۔ امریکی صدر بھی سمجھتے ہیں کہ ایران عرب ممالک کے اندر سیاسی ملیشیاؤں کو مالی ، عسکری اور سیاسی سپورٹ فراہم کر کے اپنا رسوخ کو وسعت دے رہا ہے۔