ہم نے انھیں سیدھا کبھی چلتے نہیں دیکھا
فطرت کو سنپولوں کی بدلتے نہیں دیکھا
یمن میں فضائی حملے
عالم عرب میں جنگ کی ہولناکیوں کو جنم دینے والی طاقتوں نے ساری دنیا کو یہ ناپاک پیام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ جس کو چاہیں تباہ کرسکتے ہیں جس کی سرپرستی کرنے کا ارادہ کرلیں تو اس کو نوازتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں خلیجی ملکوں عالم عرب میں ان دنوں دنیا کی بڑی نام نہاد فوجی طاقتوں کی کارستانیوں کے درمیان پھٹ پڑنے والے جنگ کے بادلوں سے یمن میں ایران کی سرپرستی والے حوثی جنگجو گروپ کے تعلق سے جو اندیشے پیدا ہوئے تھے اب اس میں یقینی حد تک تباہی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے یمن کے حوثی گروپ کی کارروائیاں تکلیف دہ بن گئی تھیں۔ یہ بالکل غیر متوقع بات ہے کہ سرزمین عرب پر ایسی طاقتیں اُبھاری گئی ہیں جو عربوں پر غالب آنے کے دیرینہ منصوبوں کی تکمیل میں معاون ہوسکتی ہیں۔ حوثی گروپ کی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یمن کا امن تباہ ہوچکا ہے۔ عوام میں جان و مال کا خوف بتدریج قوی ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے حوثی باغیوں کو سبق سکھانے کے لئے سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملکوں نے مسلسل دوسری رات بھی یمن کے حوثی غلبہ والے علاقوں پر حملے کئے۔ حوثی باغیوں کی جارحیت کو روکنے کے لئے ان فضائی حملوں کو ضروری سمجھا گیا تھا۔ اگر سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک حوثی باغیوں کی پیشرفت کو روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ گروپ بیرونی حمایت کے ساتھ دوبارہ سرگرم نہیں ہوگا۔ جس گروپ کو یمن کے باہر کی طاقتوں کی سرپرستی مل رہی ہے ان کے ارادوں کو بھانپ کر امن کی راہ کو کشادہ بنانے کے لئے بات چیت کی جانب پیشرفت کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اقتدار اور غلبہ کی آرزو کے ساتھ اپنے ملک و عوام کی تباہی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو ایسی طاقتیں اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ یمن کے عوام اس غیر ملکی عسکری کارروائیوں سے خوش نہیں ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ ایران نواز حوثی گروپ کی جارحیت نے یمن کے امن کو درہم برہم کردیا ہے۔ اس گروپ کی عدن کی جانب پیش قدمی کے بعد صدر یمن عبدالربوہ منصور ہادی قصر صدارت چھوڑ کر چلے گئے۔ صدر کا ملک چھوڑ دینا وہاں کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ حوثی باغیوں نے مسلسل عدن کے قصر صدارت کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ عالم عرب میں عرب لیگ جیسی تنظیم کی موجودگی کے باوجود ایک عرب ملک کے داخلی مسائل تباہ کن ہوتے ہیں تو یہ عرب لیگ کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں پر سوالیہ نشان ہے۔ حوثی باغیوں نے اپنی کارروائیوں سے اس خطہ میں اقتدار کے توازن کو متزلزل کردیا ہے۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا حلیف ملک ہونے کے باوجود یمن کو اس دہشت گرد کارروائیوں سے چھٹکارا نہیں مل رہا ہے۔ امریکہ نے مطلب کی خاموشی اختیار کرلی ہے تو یمن کے اقتدار کو حاصل کرنے کی ناپاک نیت کو تقویت پہونچانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ گزشتہ ستمبر میں حوثی باغیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرکے اول انھوں نے نئی ایسی حکومت کی حمایت کی تھی جس میں ان کے ارکان کو زیادہ سے زیادہ قلمدان اور عہدے دیئے جائیں لیکن چند ماہ کے اندر ہی ان باغیوں نے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور صدر پر استعفیٰ کے لئے زور دیا۔ اس کے ساتھ وہ اپنا غلبہ دیگر علاقوں تک بڑھانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ لیکن صدر یمن عبدالربوہ منصور ہادی نے حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی کا مورچہ شروع کرنے مضبوط حمایت کے حصول میں سرگرداں تھے مگر مشرق وسطیٰ میں اقتدار کا محور ایک ایسے ملک کی آرزو کی بھینٹ چڑھنے لگا ہے جس کے تعلق سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کو کئی اندیشے ہیں لیکن اب سعودی عرب کی زیرقیادت یمن پر ہونے والے فضائی حملوں نے اس خفیہ جنگ میں نئے مرحلے کی شروعات سمجھا جائے تو اس کارروائی کے آنے والے دنوں میں کیا سنگینیاں پیدا ہوں گی یہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر طاقتوں کے لئے دعوت فکر دیں گی۔ سعودی عرب اور اس کے حلیف ملکوں جن میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک عمان کے ماسوا اردن، مصر، سوڈان ، مراقش اور پاکستان شامل ہیں۔ یمن میں فضائی کارروائی کی حمایت کی ہے تو ان حوثی باغیوں کا جنھوں نے امریکہ مردہ باد کے نعرے کے ساتھ اپنی جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کیا تھا، خاتمہ کرنے یا ان کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو عالم عرب میں دہشت گردی کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔
جرمن طیارہ کا حادثہ، غیر محفوظ فضائی سفر
جرمن ونگس فلائیٹ 4U 9525 حادثہ کی وجوہات کا پتہ چلانے والوں نے یہ افسوسناک انکشاف کیا ہے کہ طیارہ کے معاون پائیلٹ نے ہی دانستہ طور پر طیارہ کو پہاڑیوں سے ٹکرایا تھا۔ یہ طیارہ جرمنی کی فضائی کمپنی لفتھانسا کی ذیلی کمپنی جرمن ونگس کا تھا جو منگل کو بارسلونا سے ڈسلڈروف جاتے ہوئے فرانس کے پہاڑی علاقہ فرنچ ایلپس پر گر کر تباہ ہوا جس میں 144مسافر اور عملے کے چھ ارکان ہلاک ہوگئے تھے۔ حادثہ کے حالات تقریباً ہولناک ہیں۔ طیارہ کا اصل پائیلٹ کاک پٹ چھوڑ کر چلا گیا۔ طیارہ کو معاون پائلیٹ کے حوالے کرکے اس کی غیر حاضری کے پس منظر میں یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ امریکہ پر 9/11 کے حملے کے بعد جس میں چار طیاروں کا اغواء کیا گیا تھا کاک پٹس کے دروازوں کو مضبوط بنادیا گیا ہے اور کاک پٹس کو محفوظ بنانے کی ترغیب دی گئی تھی لیکن جرمن ونگس کے طیارہ کے کاک پٹ کو ایک کو پائلیٹ کے حوالے کردیا گیا اور واپس نہیں آسکا کیوں کہ متواتر دستک دینے کے باوجود معاون پائلیٹ نے دروازہ نہیں کھولا اور 8 منٹ کے اندر ہی طیارہ تمام مسافروں کی زندگیوں کے ساتھ گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثہ کے بعد عالمی سطح پر فضائی سفر کی سیفٹی اور مسافروں کے جان و مال کی سلامتی پر سنگین سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر کاک پٹ کے بیت الخلاء کے دروازہ کی زنجیر باہر سے لگی نہ ہوتی تو مسافروں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ ایک معاون پائلیٹ کی دانستہ یا غیر دانستہ حرکت کی وجہ سے فضائی سفر کے غیر محفوظ ہونے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں۔ ملائیشیاء کے دو طیاروں کے حادثے کے بعد بھی فضائی کمپنیوں اور مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانے والے اداروں نے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کئے ہیںجس کے نتیجہ میں فضائی سفر خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ ان کوتاہیوں اور لاپرواہی کا نوٹ لینا ضروری ہے۔