حضرت مالکؒ بن دینار اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ اور پرہیزگار بندے تھے ۔ اپنے رب سے ایسے بندوں کی لگن جب حد سے بڑھ جائے ، تو پھر ان کو دنیا کی بھیڑ بھاڑ اچھی نہیں لگتی ۔ چنانچہ مالکؒ بن دینار نے بھی ایک جنگل میں ڈیرا ڈال دیا اور اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوگئے ۔ ایک دن پیاس نے شدت سے تنگ کیا تو آپ پانی کی تلاش میں نکل پڑے ، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جگہ پانی کاکنواں موجود ہے ،مگر پانی بہت گہرائی میں ہے ۔
دل میں سوچا کہ اگر رسی اور ڈول ہوتا تو میں پانی پی لیتا ۔ یہی سوچ کر واپس مڑے اور تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ دیکھا کہ ہرنیوں کا غول کنویں کے پاس آیا تو انھوں نے دیکھا کہ پانی بہت گہرا ہے ۔ انھوں نے اپنے منہ آسمان کی جانب اُٹھائے تو فوراً کنویں کا پانی اوپر آگیا ۔ ہرنیوں نے جی بھرکر پیاس بجھائی ، اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنی منزل کی طرف چل پڑیں۔ اب مالک ؒ بن دینار نے سوچا کہ چلو میں بھی پانی پی لیتا ہوں لیکن جب کنویں کے پاس پہنچے تو پانی پھر نیچے چلا گیا تھا ۔ خیال آیا کہ یارب میں کیا اتنا گیا گزرا ہوں کہ جانوروں سے بھی کمتر ۔ آسمان سے آواز آئی ۔ ’’اے مالکؒ ۔ تیرا یقین ڈول اور رسی پر تھا جبکہ ہرنیوں کا میرے اوپر تھا‘‘۔