یروشلم کو تسلیم کرنے ٹرمپ کا فیصلہ

ہر طرف ہیجان ہے بے چینیاں خوف و ہراس
آج سے پہلے کبھی ماحول ایسا تھا نہیں
یروشلم کو تسلیم کرنے ٹرمپ کا فیصلہ
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بالآخر وہ کام کردیا جو امریکہ کے کئی سابق صدور چاہتے ہوئے بھی نہیں کرپائے تھے ۔ انہوں نے صیہونی اسرائیل کے وجود کو مزید تقویت بخشتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا ہے اورا مریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ کو یروشلم منتقل کرنے کی کارروائی کا آغاز کرے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی تسلیم کرلیں گے اس طرح سے انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ انتہاء درجہ کی حق تلفی کی ہے اور ایک طرح سے فلسطین کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ ان کا یہ اقدام اسرائیل ۔ فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کی بجائے اس کو مزید الجھانے کا باعث بنے گا اور شائد ڈونالڈ ٹرمپ چاہتے بھی یہی ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو عزائم ظاہر کئے تھے ان کو دھیرے دھیرے عملی شکل دینے کا آغاز کرچکے ہیں اور ان کے اقدامات دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف حالات کو مزید تقویت دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو مسلم ممالک کے باشندوں پر امریکہ کے سفر پر تحدیدات عائد کرتے ہوئے اپنی عزائم واضح کردئے تھے ۔ حالانکہ اس اقدام کو ابتدائی طور پر رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور مسئلہ امریکہ کی سپریم کورٹ تک چلا گیا ۔ تاہم چند دن قبل امریکی سپریم کورٹ نے سفری تحدیدات کے ٹرمپ کے فیصلے کو عمل کرنے کی اجازت دیدی ہے ۔ یہ مرحلہ مکمل ہوتے ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو تقویت بخشنے اور فلسطین کے ساتھ ناانصافیوں کے سلسلہ کو مزید دراز کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔ ٹرمپ نے جو اعلان کیا ہے وہ انتہائی بد بختانہ اور افسوسناک ہے اور اس کے کافی دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ کی یہ کوشش امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسی کا تواتر اور تسلسل ہی کہی جاسکتی ہے ۔ امریکہ کے ایک کے بعد دیگرے کئی صدور نے اسرائیل نواز پالیسی اختیار کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ ہمیشہ نا انصافی کی ہے اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی ہمیشہ مدافعت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن کسی نے بھی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا تھا لیکن ٹرمپ نے بالآخر وہ کام اب کر ہی دیا ہے ۔
ساری دنیا اس حقیقت کی معترف ہے کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ غاصبانہ ہے اور اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن مغربی دنیا اور خاص طور پر امریکہ نے ہمیشہ ہی اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کی مدافعت کی ہے اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی ہمیشہ سے حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اسرائیل نے مغربی ممالک اور امریکہ کی تائید کے ذریعہ ہی فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں اور ہمیشہ سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی نو آبادیاں قائم کردی ہیں۔ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل نے دھیرے دھیرے کارروائی کرتے ہوئے عملی طور پر ساری فلسطینی آبادیوں کا گھیراو کرلیا ہے اور اپنے تسلط کو اس نے بتدریج استحکام بخشا ہے ۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے سابق رہنما فلسطین یاسر عرفات کے دور میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین ایک معاہدہ کروایا تھا جس کی رو سے 1999 تک فلسطینی علاقوں سے اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کو ختم کرتے ہوئے مملکت فلسطین کے قیام کا اعلان کرنا تھا ۔ ا ب امریکہ ہو یا کوئی دوسرا مغربی ملک ہو اس معاہدہ کا ذکر کرنے تک کو تیار نہیں ہے حالانکہ اس کو بنیاد بناکر کام کیا جاتا تو یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہوگیا ہوتا اور آزاد مملکت فلسطین کا وجود عمل میں آجاتا ۔ شائد مغربی ممالک اور امریکہ نہیں چاہتے کہ آزاد مملکت فلسطین کا قیام عمل میں آئے ۔ اسی وجہ سے اسرائیل کی جارحیت اور اس کے مظالم کی بھی وقفہ وقفہ سے مدافعت کی جاتی رہی ہے اور اس کام میں تمام مغربی ممالک شامل رہے ۔ ان ممالک نے فلسطینیوں کی جدوجہد کو مسترد کرنے میں اسرائیل سے زیادہ سرگرم رول ادا کیا ہے ۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اب جو تازہ ترین احکام جاری کئے ہیں اس نے ایسا لگتا ہے کہ آزاد مملکت فلسطین کے قیام کی کوششوں کو عملا دفن کرنے کی سمت مزید پیشرفت کا کام کیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ دیگر انصاف پسند ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ اور تسلط کو ختم کرنے کی سمت پیشرفت کرتا ۔ آزاد مملکت فلسطین کے قیام کی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہونچنے کیلئے کوشش کی جاتی اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دلانے کیلئے حکمت عملی تیار کی جاتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے ٹرمپ نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی جدوجہد کو ختم کرنے کی کوششیں شدت اختیار کرینگی ۔ اس فیصلے کے نتیجہ میںاسرائیل کے جابرانہ مظالم میں مزید اضافہ ہوگا اور اسرائیل کے عزائم مزید بلند ہونگے ۔ اس فیصلے کے خلاف دنیا بھر کے انصاف پسند ممالک کو آواز بلند کرنے اور فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔