یاقوت پورہ اور ملک پیٹ پر ٹی آر ایس کی نظریں

بلدی انتخابات کے مظاہرے کو دہرانے کا عزم، کانگریس پارٹی بھی زور آزمائی کیلئے تیار
حیدرآباد۔ 28 ڈسمبر (سیاست نیوز) بڑی سیاسی جماعتوں میں قائدین کی دل بدلی کوئی نئی بات نہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے جب پرانے شہر میں قائدین اپنے روشن مستقبل کے لیے بڑی پارٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔ عوام کی خدمت کے نام پر مفادات کی تکمیل کے رویہ سے ناراض مقامی جماعت مجلس کے کئی قائدین جن میں کارپوریٹرس اور سابق کارپوریٹرس شامل ہیں، ٹی آر ایس اور کانگریس میں شمولیت کے لیے پرتول رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ قائدین دونوں پارٹیوں کی سرکردہ قیادت سے ربط میں ہیں اور فیصلے کے اعلان کے لیے مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی جماعت سے قائدین کی شمولیت کے مسئلہ پر کانگریس اور ٹی آر ایس نے احتیاط کے ساتھ قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عوام میں غیر مقبول قائدین کی شمولیت کو روکا جاسکے۔ حالیہ عرصہ میں پرانے شہر میں کانگریس اور ٹی آر ایس کی سرگرمیوں میں شدت پیدا ہوچکی ہے اور بنیادی سطح پر عوام میں یہ پیام پہنچ رہا ہے کہ مسائل کی یکسوئی صرف ایک جماعت پر انحصار سے ممکن نہیں۔ اگر پرانے شہر کے عوام دیگر جماعتوں میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کریں گے تو ان کے مسائل کی یکسوئی میں آسانی ہوگی۔ عوام کو گزشتہ 50 سے زائد برسوں میں اختیار کی گئی پالیسی پر آج افسوس اور ندامت کا احساس ہورہا ہے کیوں کہ مقامی جماعت نے ہمیشہ انتخابات سے قبل بلند بانگ دعوے کیے لیکن نتائج کے فوری بعد رائے دہندوں کو فراموش کردیا گیا۔ اس مرتبہ مقامی جماعت نے اپنی حکمت عملی میں کسی قدر تبدیلی کی ہے۔ پارٹی کی جانب سے اعلانات اور وعدوں کے بجائے حکومت سے اعلانات کرائے گئے اور اس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات سمیت 26 سے زائد ایسے اعلانات کیے جو سننے اور پڑھنے میں کافی دلکش اور خوش کن ہیں لیکن ان پر عمل آوری جائزہ لیں تو سوائے چند ایک غیر اہم اعلانات کے اہم اعلانات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ چیف منسٹر نے حالیہ اسمبلی اجلاس میں مسلمانوں کے حق میں جو اعلانات کیے تھے ان پر عمل آوری میں نہ ہی حکومت اور نہ مسلم قیادت کو دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ صرف خوش کرنے والا رویہ نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ پرانے شہر میں مقامی جماعت کے قائدین میں بے چینی پیدا کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی خدمت کے جذبے کے تحت قائدین دیگر پارٹیوں کا رخ کررہے ہیں۔ کانگریس اور ٹی آر ایس میں قائدین کی شمولیت کی رفتار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ 2019ء انتخابات تک مزید شدت اختیار کرے گا۔ کانگریس پارٹی جس نے پرانے شہر میں 2019ء انتخابات میں طاقت آزمائی کا فیصلہ کیا ہے، اس نے مقامی جماعت کے اہم قائدین کی شمولیت کو ہری جھنڈی دکھادی ہے جبکہ ٹی آر ایس کا رویہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ حکومت کی حلیف جماعت ہونے کے باعث مقامی جماعت کے قائدین کو شامل کرنے کا کھلے عام اعلان کرنے سے گریز کیا جارہا ہے۔ لیکن پارٹی 2019ء انتخابات تک بوتھ سطح کی کمیٹیاں تشکیل دینے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ پارٹی کی تنظیم سازی سے وابستہ قائدین نے بتایا کہ چیف منسٹر نے پرانے شہر سے تعلق رکھنے والے سینئر قائدین اور مسلم عوامی نمائندوں کو ذمہ داری ہے کہ وہ پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات میں پارٹی کے استحکام کے لیے متحرک ہوجائیں۔ گریٹر حیدرآباد میونپسل کارپوریشن انتخابات میں 99 نشستوں پر شاندار کامیابی کے ریکارڈ کو ٹی آر ایس پرانے شہر میں دہرانا چاہتی ہے۔ وہ پرانے شہر کی کم سے کم ایک اسمبلی نشست پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی تیار کررہی ہے اور اس سلسلہ میں اس کی ساری توجہ ملک پیٹ اور یاقوت پورہ اسمبلی حلقوں پر ہے جہاں اقلیتی اور اکثریتی رائے دہندوں کے تناسب میں معمولی فرق ہے اور اکثریتی فرقہ کی تائید حاصل کرتے ہوئے ٹی آر ایس کامیابی کے موقف میں آسکتی ہے۔ ان دونوں حلقوں پر کانگریس اور بی جے پی کی بھی نظریں ہیں۔ 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی حلقہ یاقوت پورہ میں دوسرے نمبر پر رہی تھی۔ ٹی آر ایس کے ایک سینئر قائد نے کہا کہ اگر ان حلقوں میں سنجیدگی سے مقابلہ کیا جائے تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ پرانے شہر کے قائدین اور کیڈر کی جانب سے چیف منسٹر اور شہر کے وزراء پر دبائو بنایا جارہا ہے کہ 2019ء میں مقامی جماعت سے کوئی مفاہمت نہ کی جائے کیوں کہ پارٹی کا موقف مستحکم ہے۔ دونوں اسمبلی حلقوں کے علاوہ دیگر اسمبلی حلقہ جات میں ٹی آر ایس کے امیدواروں نے بلدی انتخابات میں بہتر مظاہرہ کیا تھا۔