ہنر کے جواہر پاروں کو غربت کی زنجیروں سے نکالنے کی ضرورت

نرمل /23 فروری ( جلیل ازہر کی رپورٹ ) اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ غربت فاصلہ بڑھا دیتی ہے ۔ اس لئے کہ آگے آگے ضرورتیں ہیں اور پیچھے پیچھے انسان بھاگ رہا ہے ۔ اس کے باوجود دوسروں کا دکھ درد سمجھنے اور ان کی مدد کرنے والے بھی اس دور میں موجود ہیں ۔ بزرگوں کا قول بھی ہے کہ زندگی شمع کی طرح بسر کرنا سیکھ لیں جو خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے ۔ یقیناً انسان کو اپنے اندر جھانکنا آجائے تو وہ دوستوں کے احساست کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ ان لفظوں کو قلمبند کرنے کا مقصد کسی کی تعریف میں پل باندھنا نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کو قارئین تک پہونچانا ہے ۔ مستقر نرمل سے چھ کیلو میٹر دور ایک غریب خاندان موضع چٹیال میں کسم پرسی کی حالت میں زندگی گذار رہا ہے ۔ سید شفیع احمد جو ایک میکانک ہیں ان کو دو لڑکے او رایک لڑکی ہے ۔شفیع کے چھوٹے فرزند سید عمران جو مالی حالت کی وجہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم ترک کرتے ہوئے سوسائٹی کے تحت آئی ٹی آئی میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اس نوجوان میں نئی نئی ایجادات کی وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی قابل انجینئیر میں ہوتی ہیں ۔ دو دن قبل نیوز ایڈیٹر روزنامہ سیاست جناب عامر علی خان ایک اردو سمینار میں اپنے دوست احباب کے ساتھ تشریف لائے تھے تو راقم الحروف نے انہیں اس نوجوان کے کارناموں سے واقف کروایا ۔ جناب عامر علی خان نے فوری اپنے دوست احباب کے ساتھ اس نوجوان کے گھر موضع چٹیال پہونچے ۔ مسٹر عمران نے انہیں نمک سے برقی کی تیاری کا عملی نمونہ بتایا اور مقفل مکان میں چور گھس آنے پر سیل فون پر فوری اطلاع کے ساتھ ساتھ گھر بیٹھ کر کم از کم پانچ کیلو میٹر دور کسی کھیت میں سیل فون کے ذریعہ موٹر اسٹارٹ کرنے اور فون کے ذریعہ ٹیلی ویژن اسٹارٹ کرنے کا عملی نمونہ پیش کیا ۔ اس نوجوان کو کسی بھی نئی ایجاد کیلئے اوزار کی خریدی مشکل ہے ۔ اس نے اپنی غربت کی داستان سنائی ۔ ساتھ ہی اس نے کہا کہ اس کی ایک بہن جو نرس کی ٹریننگ مکمل کرچکی ہے ملازمت مل جائے تو ماں باپ کا سہارا بننا چاہتی ہے ۔ جناب عامر علی خان اور ان کے دوست احباب نے وقتی طور پر اس خاندان کی مالی مدد کی اور عمران کو آگے پڑھنے انہیں درکار میٹریل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عمران کی بہن کو بہت جلد نرس کی ملازمت کا وعدہ کیا ۔ ان کے اس اقدام سے متاثر ہوکر لڑکے کے والد سید شفیع نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے کہا کہ آپ فرشتہ بن کر میرے گھر آئے ہیں ہم ہمیشہ آپ کے حق میں دعاگو رہیں گے ۔ لڑکے کے والد کی آنکھوں کی ویرانی میں چھپے ہوئے درد نے عامر علی خان کے دل کو ہلاکر رکھ دیا ۔ اس لئے کہ اس گھر کی لڑکی اپنے والدین کے درمیان بالکل اس پرندے کی طرح تھی جو قفس میں پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہے ۔ عامر علی خان اور ان کے دوست احباب کی مالی مدد اور عمران کو آگے پڑھاتے ہوئے لڑکی کو ملازمت دلانے کے تیقن پر اس غریب گھر میں خوشیوں کے بادل نظر آئے ، نہ جانے ایسے کتنے ہنر مند مجبوریوں کے تحت چہار دیواری میں ہی اپنی صلاحیتوں کو گنوا رہے ہیں ۔ غربت میں رشتہ دار بھی دور کے چراغ معلوم ہوتے ہیں لیکن سماج میں قدرت ایسے مسیحاؤں کو ہنر مندوں کی چوکھٹ تک پہونچا دیتی ہے ۔ آج عمران کے گھر امید کا چراغ روشن ہونے جارہا ہے ۔