ہند ۔ چین تعلقات

دل تو ایک ہے لیکن نام دل بدلتا ہے
بس گیا تو گلشن ہے لٹ گیا تو صحرا ہے
ہند ۔ چین تعلقات
چین کے تعلق سے ایک عام تاثر ہیکہ یہ ناقابل بھروسہ ملک ہے۔ ہندوستان کے معاملہ میں اس کی پالیسی ہمیشہ غاصبانہ کارروائیوں اور سرحدی تنازعات سے بھری ہوئی ہوتی ہے مگر حالیہ برسوں میں تیزی سے تبدیل ہونے والی عالمی صورتحال اور معاشی ترقی کے تناظر میں ہندوستان کو ایک مضبوط موقف حاصل ہوا ہے جس کے بعد چین کی پالیسیوں میں بھی تبدیلی کا رونما ہونا فطری امر ہے۔ مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد پڑوسی ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی خاص کر پاکستان کے ساتھ مودی حکومت کے تعلقات تلخ چل رہے ہیں جبکہ چین کی جانب جھکاؤ کا مظاہرہ کرنے والی مودی حکومت کو اس حقیقت کا بھی علم ہوا کہ چین خود کو پاکستان کا مضبوط حلیف ملک تصور کرتا ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ہند ۔ پاک کے سامنے چین ہی معاشی طور پر بہتری سے ابھرتاہوا ملک ہے۔ چین کی اقتصادی ترقی سے اب امریکہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ کمیونسٹ چینی حکمرانی کے قائدین اپنے کاموں سے مقبول ہوئے ہیں لیکن ان کے نزدیک پڑوسیوں کا احترام کم ہی دیکھا جاتا ہے۔ 1959ء سے چین کو آزمانے والی ہندوستانی قیادت نے ہمیشہ دھوکہ کھایا ہے اس کے باوجود دونوں جانب ایک سطحی دوستی کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ تبت اور ہند سرحدی تنازعہ کو ہوا دینے کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں اور اروناچل پردیش میں وقتاً فوقتاً دراندازی کے تناظر میں وہ ہندوستان کو کیا پیام دینا چاہتے ہیں اس پر گہرائی سے غور کئے بغیر ہی مودی حکومت نے اپنی وزیرخارجہ سشماسوراج کو کمیونسٹ قائدین سے ملاقات کیلئے روانہ کیا ہے تو اس دورہ کے مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع کرنی چاہئے۔ یہ پہلا موقع ہیکہ صدر چین ژی ژن پنگ نے غیرمتوقع طور پر وزیرحارجہ سشماسوراج سے ملاقات کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ عام طور پر صدر چین بیرونی ملکوں کے وزرائے خارجہ سے ملاقات نہیں کرتے لیکن اس مرتبہ صدر چین نے وزیرخارجہ ہندوستان سے راست ملاقات کا فیصلہ کیا ہے تو حالیہ ہندوستانی معاشی ترقی اور صدر امریکہ بارک اوباما کے دورہ ہند کے بعد ہند ۔ چین روابط میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ دیکھا جارہا ہے۔ صدر امریکہ کا دورہ ہند دراصل ایشیا پیسیفک اور ہندوستانی بحری علاقہ کیلئے ہند ۔ امریکی مشترکہ حکمت عملی کے اختیارکردہ ویژن کا حصہ ہوگا۔ ہندوستان کو چین کے ساتھ یکساں دوری برقرار رکھنے کی بجائے باہمی مسائل کی یکسوئی پر توجہ دینی چاہئے۔ سشماسوراج کے دورہ سے ہند ۔ چین کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے کا پیدا ہونا ایک اہم کامیابی ہے۔ ہندوستان کی جاپان سے بڑھتی قربتوں نے بھی چین کو بے چین کر رہا ہے اس لئے وہ اپنے قریبی پڑوسی ملک کو غیراہم سمجھنے کی اب غلطی نہیں کرسکتا۔ دونوں ملکوں کو تجارتی، سیاسی اور دیگر شعبوں میں بھروسہ مندی کے مزید کام کرنے ہوں گے۔ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر باہمی تعاون کی فضاء کو فروغ دیا جاتا ہے تو اکثر شکایات کے ازالہ میں مدد ملے گی۔ وزیرخارجہ سشماسوراج نے چین کے ساتھ مستقبل کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی کی ایک نمائندہ بن کر اپنی ذمہ داری بخوبی نبھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بعد وزیراعظم مودی ماہ مئی میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس دورہ سے دونوں جانب وسیع تر باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو تعاون کے نئے شعبوں کو بھی کشادہ کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ ایشیائی سنچری کو یقینی بنانی کیلئے عام تاثر کو پورا کرنے دونوں ملک حکمت عملی پر مبنی مواصلات کے رابطہ پر دھیان دیں۔ دونوں جانب جب باہمی روابط کو مستحکم بنایا جانا ہے تو سرحدی تنازعہ کی یکسوئی کی بھی کوشش ہوسکتی ہے۔ گذشتہ سال صدر چین کے دورہ ہند کے بعد یہ پہلا موقع ہیکہ دونوں پڑوسی ملکوں کی مضبوط قیادت نے اعلیٰ سیاسی سطح پر ایک دوسرے کو مصروف رکھنے کی کوشش کی ہے۔ منموہن سنگھ زیرقیادت یو پی اے حکومت نے جن پالیسیوں کو چھوڑ دیا تھا انہیں جاری رکھنا مودی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جب وزیراعظم نریندر مودی چین کا دورہ کریں گے تو ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے اگر ہند ۔ چین نے ہر محاذ پر ترقیات کا عمل شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر جنوبی ایشیاء میں یہ دونوں ملک سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں جبکہ 2013ء سے سرحدی کشیدگی کے متعدد واقعات کے بعد ہندوستان نے چین کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے۔ اس کا مقصد پرامن فضاء کو برقرار رکھنا ہے۔ گذشتہ چند دہوں کے دوران جو حالات تھے اب وہ باقی نہیں رہے بلکہ ہند ۔ چین باہمی تعلقات کی نوعیت میں ’’یکسر تبدیلی‘‘ آئی ہے تو یہ معاشی سطح پر طاقتور ہونے کی علامت ہے۔ اب چین کو ہندوستان کے ساتھ اپنی دوستی کے ہاتھ مزید بڑھانے اور دونوں کے مفادات پر توجہ دے کر مسائل کی یکسوئی پر دھیان دینا ضروری ہے۔