ہیں بے خوف شاخیں ہیں مسرور پتّے
مگر جانے کیوں ہے ثمر سہما سہما
ہند ۔ چین تجارت
چین کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کبھی بھی روشنی کی کرن ثابت نہیں ہوئے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، باہمی اعتماد پر منحصر ہوتے ہیں۔ دونوں ملکوں نے اب تک یہ طے نہیں کیاکہ ان کے درمیان کونسی بات زیادہ اہم ہے۔ سرحدی تنازعہ، چین کی فوج کی جارحیت، ہندوستانی علاقوں میں دراندازی سے ہٹ کر دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کے شعبہ میں بھی توازن کی برقراری پر توجہ نہیں دی۔ دونوں ملکوں کے روابط کو ایک اعلیٰ سطح تک لے جانے کی کوشش کو مثبت سوچ عطا کی جائے تو اس میں دو رائے نہیں کہ تجارتی سرگرمیاں عروج پر ہوں گی۔ اس سمت میں ایک اچھا قدم یہ اُٹھا کہ نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری نے چین کا اپنے پہلے دورہ کا آغاز کرتے ہوئے ہند ۔ چین تجارت میں پائے جانے والے عدم توازن کی کیفیت کو دور کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے دونوں ملکوں کے باہمی اُمور پر توجہ مبذول کرانے کے علاوہ اپریل 1954 ء میں ہندوستان اور چین کے علاقہ تبت کے درمیان تجارتی معاہدہ کا احاطہ کرتے ہوئے ترتیب دیئے گئے پنچ شیل معاہدہ کی 60 ویں یادگار تقریب میں شرکت کے ساتھ ماینمار اور چین کے ہمراہ ہندوستان کی سہ رخی چوٹی ملاقات میں حصہ لیا جانا اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔ چین کو اپنے 60 سال قبل کئے گئے معاہدہ پنچ شیل کے اُصولوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگرچیکہ یہ معاہدہ اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو اور زوہوا فلائی نے کیا تھا جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے اُصولوں خاص کر امن، بقائے باہم، عدم جارحیت، ایک دوسرے کی یکجہتی اور مقتدر اعلیٰ کا احترام، عدم مداخلت اور باہمی فوائد کے لئے تعاون کو فروغ دینا تھا۔ مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد اس ماہ کے اوائل میں چین کے وزیر خارجہ وانگ وائی نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ اس طرح کے باہمی دوروں کی تاریخی افادیت ہے۔ سابق میں بھی دونوں ملکوں کے قائدین نے آپس میں دوستی اور تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے تھے مگر وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے تلخ واقعات سے کشیدگی کو ہوا ملتی رہی ہے۔ نائب صدرجمہوریہ نے اپنے پانچ روزہ دورہ چین کے آغاز سے قبل جن خیالات و توقعات کا اظہار کیا تھا اس کا حتمی نتیجہ پیر کے روز ہونے والی باہمی بات چیت سے ہی اخذ کیا جاسکتا ہے۔ دونوں جانب کوشش ہونی چاہئے کہ باہمی تعلقات کو ازسرنو ایک معتبر اور بھروسہ مند بلندی عطا کریں۔ تجارت میں پائے جانے والے عدم توازن کو دور کریں۔ یہ تشویش کی ہی بات ہے کہ دو پڑوسی ملکوں میں باہمی تجارت کے توازن کو متزلزل دیکھا جارہا ہے۔ ساری دنیا میں معیشت کو فروغ دینے کے لئے کئی ملکوں نے اپنے دیرینہ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ ایشیاء کے دو بڑے ملکوں میں ابھی اس تجارتی فرق کو دور کرنے کی دلچسپی کا فقدان ہو تو تجارتی توازن میں فرق پیدا ہوگا۔ 2011 ء میں دونوں ملکوں کی تجارت 75 بلین امریکی ڈالر کے قریب پہونچ گئی تھی لیکن گزشتہ سال 65.45 بلین ڈالر تک ہوئی۔ گزشتہ چند برسوں کے تجارت کا جائزہ لیا جائے تو دونوں ملکوں کی تجارت کا اوسطاً 35 بلین ڈالر تک ہی رہی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں ملک آئندہ سال تک باہمی تجارت کو 100 بلین امریکی ڈالر کی سطح تک لے جانے کی کوشش کریں اور یہ کام دونوں جانب کے کامرس شعبہ سے وابستہ ماہرین کا ہے۔ نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری کو بھی تشویش ہے کہ چین کے ساتھ ہماری تجارت کا گراف گرتا جارہا ہے۔ تو وہ چین کے قائدین سے مزید تجارت کو فروغ دینے کے لئے بات چیت کو کامیاب بنائیں۔ ویسے اس ہفتہ وزیر کامرس نرملا سیتا رامن اپنے چین کے ہم منصب سے ملاقات کررہی ہیں۔ اس ملاقات میں معاشی تبدیلی کے تقاضوں پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ تیزی سے اُبھرتے ہندوستان کے لئے اس مرحلہ میں ضروری ہے کہ وہ چین سے نہایت ہی شدید مسابقت والی اہم اشیاء کی خریداری کے لئے قدم اُٹھائے۔ اگر ہندوستان دیگر ملکوں جیسے جرمنی، جاپان سے اشیاء خریدتا ہے تو یہ چین کی اشیاء کی خریداری کے مقابل بہت مہنگے ثابت ہوتے ہیں اس لئے ہندوستانی صنعتوں کو چین سے مسابقت رکھنے والے معیاری بنانا چاہئے۔ تجارتی لین دین کے عوض ہی ہم اپنی اشیاء وہاں منتقل کرسکتے ہیں اور وہاں سے ان کی اشیاء درآمد کرسکتے ہیں اس سے تجارتی خسارہ بھی کم ہوگا اور توازن بھی برقرار رہے گا۔ چین نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان میں غیرمعمولی سرمایہ کاری کی ہے تو ہندوستان کی سرزمین بھی اس کے لئے منفعت بخش ہوگی۔ دراصل چین بھی عالمی حکمت عملی کے تحت اپنی تجارتی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ کوئی بھی ملک زیادہ مدت تک تجارتی منڈی کا سردار بن کر نہیں رہ سکتا۔ چین کو بھی ڈر ہے کہ اس کے پاس دنیا کے سب سے زیادہ زرمبادلہ کے ذخائر ہونے کے باوجود تیزی سے بڑھتی اُجرتوں کی وجہ سے چین کی پیداواری لاگت میں زبردست اضافہ ہوجائے تو آنے والے دنوں میں عالمی مارکٹ میں مسابقت کی طاقت کھودے گا اس کے لئے ہندوستان کی مارکٹ اس کے لئے تقویت کا باعث بنتی ہے تو وہ اس جانب توجہ دینے سے گریز نہیں کرے گا۔ بہرکیف نائب صدرجمہوریہ کے دورہ چین کو تجارت و تعلقات کے معاملہ میں خصوصیت حاصل ہوتی ہے تو دیگر باہمی مسائل بھی حل کرلئے جاسکتے ہیں۔
افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ معیشت کیلئے خطرہ
ریزرو بینک آف انڈیا نے افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ کو معیشت اور مالیاتی مستقبل کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے انتباہ دیا کہ افراط زر پر قابو پایا نہیں گیا تو اس کے منفی اثرات مالیاتی بچت، سرمایہ کاری اور پیداوار پر مرتب ہوں گے۔ آر بی آئی نے اپنی 9 ویں مالیاتی استحکام والی رپورٹ میں معیشت اور پیداوار کی جانب جن حقائق کی نشاندہی کی ہے وہ نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے معاشی و مالیاتی اقدامات اور آنے والی بجٹ تجاویز کے تحت آزمائش کا باعث ہیں۔ ملک میں مانسون کی تاخیر سے آمد یا مانسون کی ناکامی کے باعث پہلے ہی سے زرعی پیداوار میں کمی کا شکار ہندوستان کو مزید پریشان کن صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ملک میں بینک کاروبار اور گاہکوں کی جانب سے ڈپازٹ کی عادت میں کمی نے مالیاتی بحران کو غور طلب و تشویشناک بنادیا ہے۔ سابق وزیر فینانس چدمبرم نے کہا تھا کہ اب ہندوستانیوں میں بچت کی عادت ختم ہورہی ہے۔ ماضی میں بینکوں میں رقمی بچت کا حوصلہ افزاء رجحان پایا جاتا تھا لیکن فی زمانہ شہریوں میں خوش خوراکی اور تعیشات کی زندگی کی عادت نے بچت کے شوق و فکر کو مفقود کردیا ہے۔ اس لئے بینکوں میں رقومات کی کمی پائی جاتی ہے۔ ملک میں مجموعی پیداوار کی شرح جو 2004-08 ء میں 12 فیصد تھی گھٹ کر اب 7 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مصارف کی شرح 7 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہوگئی ہے۔ اس سے ملک کی پیداواری صلاحیتوں اور طلب میں بہت بڑے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تناظر میں مودی حکومت کو معاشی اقدامات میں استحکام لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مالیاتی پالیسی اقدامات ٹھوس ہوں تو بحران کی کیفیت سے بچا جاسکتا ہے۔ ساری دنیا میں جس وقت معاشی سست رفتاری چل رہی تھی ہندوستان میں معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کی کوشش سے عالمی بحران کے اثرات رونما نہیں ہوئے۔ اب مودی حکومت اور ان کی فینانس ٹیم کا کام ہے کہ آر بی آئی کی ظاہر کردہ تشویش دور کرتے ہوئے مالیاتی اقدامات کو محتاط طریقہ سے مثبت پالیسیوں کے ساتھ اُٹھایا جائے۔ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی راہیں کھول دینے سے پیداوار کی رفتار میں بھی اضافہ ہوگا۔