ہند ۔ پاک معتمدین خارجہ کی ملاقات

مدتوں دیکھا کئے ہم روپ رنگ
آئینہ تھا خواب کا ٹوٹا نہیں
ہند ۔ پاک معتمدین خارجہ کی ملاقات
ہندوستان اور پاکستان کے معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت کے دوران ہندوستان نے باہمی مسائل پر کھری کھری بات چیت کی اور دہشت گردی کی وجہ سے باہمی تعلقات میں پیدا ہونے والی دراڑوں کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے اصل موضوع سے منہ موڑ لینے کی عادت سے معاملہ دن بہ دن طول پکڑتا جارہا ہے۔ معتمد خارجہ ایس جئے شنکر اور ان کے پاکستانی ہم منصب عزیز احمد چودھری نے 90 منٹ کی ملاقات کے دوران پٹھان کوٹ حملہ، 26/11 مقدمہ اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کی تحقیقات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ یہ ملاقات دراصل ’’ہرٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس میں شرکت کے موقع پر ہوئی ہے۔ جنوری میں پٹھان کوٹ پر حملہ کے پیش نظر دونوں جانب کی مقررہ بات چیت کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ بنانے والے واقعات کو روکنے کے اقدامات پر متعدد مرتبہ زور دیا گیا مگر پٹھان کوٹ واقعہ نے خوشگوار تعلقات کیلئے ہندوستان کی کوششوں کو دھکہ پہنچایا تھا۔ دونوں جانب ایک دوسرے پر مختلف عنوانات سے شکایات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاکر ہی تعلقات کی ڈور کو بوسیدہ بنادیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی پاکستان نے اپنی سرزمین پر را کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان کا ماننا ہیکہ ہندوستان کی خطہ ریجنسی ’’را‘‘ نے کراچی اور بلوچستان میں مقامی انتہاء پسندوں کی مدد کی ہے جس کی وجہ سے یہاں حالات کشیدہ رہتے ہیں۔ پاکستان اس طرح کے الزام کے ذریعہ بات چیت کے جلد سے جلد آغاز کے امکانات کو موہوم کررہا ہے۔ پاکستان نے حال ہی میں ہندوستانی ایجنٹ کی گرفتاری کا دعویٰ کرتے ہوئے ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کے اقدامات کرنے حکومت کی سطح پر جب اعلان کیا جاتا ہے تو ہندوستان کی جانب سے اسی طرح را کی موجودگی کی خبروں کو یکسر مسترد کردیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان نے تعلقات کی سطح پر ہندوستان کو شک کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے تو اس کی کوشش کسی بھی صورت امن مذاکرات کے حق میں مثبت نہیں ہوسکتی۔ معتمدین خارجہ کی سطح کی بات چیت کو کامیاب بنانے کیلئے ضروری تھا کہ دونوں ملکوں کے نمائندے تلخ واقعات کو جارحانہ طرزعمل سے نمٹنے کے بجائے نرم رویہ سے توجہ دینے کی کوشش کرتے۔ دونوں معتمدین خارجہ کی بات چیت کا زیادہ تر وقت مسئلہ کشمیر پر مرکوز رہا حالانکہ دونوں جانب جامع باہمی مذاکرات کا آغاز کرنے کی ابتدائی کوشش میں مصروف ہیں کہ انہیں پیچیدہ مسائل پر زیادہ زور دینے کے بجائے تعلقات کو بحال کرنے اور حالات کو پرامن بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گرد گروپس کی موجودگی کی جب تردید کرتا ہے تو اس سے اس کی تردیدی موقف کی عادت برقرار رہنے کا اشارہ ملتا ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد جب دونوں ملکوں کے معتمدین خارجہ سطح پر رابط کاری معطل ہوگئی تھی لیکن اس چار ماہ کے وقفہ کے بعد دونوں معتمدین خارجہ نے ملاقات کی اور بات چیت کی پہل کی ہے تو ایک اچھی علامت اور کوشش ہے۔ گذشتہ ماہ ہی وزیرخارجہ سشماسوراج نے اپنے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز سے نیپال میں چوٹی کانفرنس کے موقع پر ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بھی ہندوستان کی کوشش یہ رہی کہ پٹھان کوٹ حملہ پر پاکستان کا نیا موقف ہوگا اور وہ پٹھان کوٹ حملہ کے ملزم کے خلاف کارروائی کرنے سے متعلق اپنے منصوبہ کا کب اعلان کرے گا لیکن ہندوستان کو اس سلسلہ میں کوئی جواب نہیں ملا۔ تاہم اس موضوع کی بنیاد پر تعلقات اور مذاکرات کو تعطل کا شکار بنانا بھی ہر دو کیلئے مناسب نہیں تھا اسی لئے معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت دونوں جانب جامع باہمی مذاکرات کیلئے مثبت راہ فراہم کرے گی تو توقع کی جاتی ہیکہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی بہت جلد ملاقات ہوگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے حقیقی جذبہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک کوئی بھی فریق نیم دلانہ کوشش کرے گا تو اس کے بہتر نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ کسی بھی ملک میں دہشت گردی اور تخریب کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خفیہ اور درپردہ سازشوں کو ہی امن کی راہ سمجھی جائے تو پھر حالات بہتر ہونے کی توقع کرنا فضول ہوگی۔ جب بھی مذاکرات کی جانب پہل کی جاتی ہے تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہونے کی کوشش کی جانے پر حالات معمول پر آجائیں۔