ہند ۔ پاک مذاکرات

خود اپنی قباؤں میں خنجر چھپا کر
یہ کیا ڈھونڈتے ہو ہماری قبا میں
ہند ۔ پاک مذاکرات
ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے خواہاں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والے واقعات کی روک تھام کیلئے مضبوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کو مکتوب لکھ کر مذاکرات کی خواہش تو ظاہر کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو ناراض کردینے والی بعض کارروائیوں نے کشیدگی میں اضافہ کا بہانہ پیدا کردیا۔ عمران خان کے مکتوب کے بعد ہندوستان نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کی حامی بھری تھی اور یہ ملاقات اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ہونے والی تھی، صرف ایک دن کے اندر ہی پاکستان کی جانب سے ہونے والی کارروائیوں نے ہندوستان کے فیصلہ کو واپس لینے پر مجبور کردیا۔ بلاشبہ برصغیر ہند میں مستقبل کی جانب پیشرفت کرنے کیلئے دونوں ممالک کو مذاکرات کرنا ضروری ہے۔ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کو حل کرنے کیلئے باہمی بات چیت ہی واحد راستہ ہے لیکن اس جانب قدم اٹھانے سے پہلے ہی تکلیف دہ واقعات رونما ہوتے ہیں تو پھر ہندوستان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ بات چیت کیلئے راضی ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر سرحد پر کچھ کشیدگی کا باعث بننے والی کارروائیاںہوتی ہیں تو اس سے ہندوستان کے اندر ناراضگی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ جموں و کشمیر میں 3 پولیس ملازمین کو بہیمانہ طریقہ سے ہلاک کردیئے جانے اور دہشت گرد برہان وانی کے حق میں اسٹامپس ڈاگ ٹکٹ جاری کرنے سے ہندوستان کو اپنا اٹھایا ہوا قدم واپس لینے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ وزیرخارجہ سشماسوراج اور وزیرخارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کے درمیان یہ ملاقات ایک مثبت پہل تھی مگر امن دشمن عناصر نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے ہی نہیں دیا۔ اس کے علاوہ حکومت ہند نے بھی اپنا رویہ غیرمتوازن بنا لیا ہے۔ ایک واقعہ کو اپنی مذاکرات کے جذبہ پر حاوی کردیا اور بات چیت کا دور شروع ہونے سے پہلے ہی اسے مسدود کردیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملاقات کے پروگرام کو برقرار رکھتے ہوئے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کے ساتھ جب دونوں جانب کے نمائندے مل بیٹھتے تو اس مسئلہ پر بھی غور کرنے کا موقع ملتا۔ شکایت کی سماعت اور اس کا حل نکالنے کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان کا رویہ دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو پاکستان کو اپنے اس رویہ سے اجتناب کرنا چاہئے تھا۔ ایک طرف دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے تبادلہ خیال کرنے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے دوسری طرف ہندوستان جن افراد کو دہشت گرد تصور کرتا ہے پاکستان ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو پھر ہندوستان کو آگے بڑھنے سے پہلے ہی اس کی راہ روک دی جاتی ہے۔ 2016ء میں دہشت گرد حملے کے بعد سے یہ مذاکرات بند ہیں۔ پٹھان کوٹ فضائی پٹی پر ہونے والے اس حملے نے دونوں ملکوں کو دور کردیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس دونوں ملکوں کو آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ہی نہیں دے رہے ہیں۔ دونوں جانب آخری ملاقات ڈسمبر 2015ء میں اسلام آباد میں ہوئی تھی جہاں سشماسوراج نے دورہ کیا تھا۔ ایشیاء چوٹی کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے سشماسوراج نے اس وقت کے وزیرخارجہ پاکستان سرتاج عزیز سے ملاقات کی تھی اب جبکہ پاکستان میں نئی حکومت اور نئے وزیراعظم آئے ہیں تو عمران خاں کی قیادت میں پاکستان کو بہت کچھ مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان بظاہر ایک اچھے جذبہ کے ساتھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہیں انہیں اگر غربت مٹانے اور برصغیر کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کی خواہش ہے تو وہ اپنی اس خواہش کو اس وقت ہی روبہ عمل لاسکتے ہیں جب اپنے ملک کی سرزمین کو دہشت گرد گروپس سے پاک کردیں۔ ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعہ تنازعات کی یکسوئی کا جذبہ رکھنا اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کیلئے اعتماد پیدا کرنے والے کام کرنے ہوں گے۔ سرحدی کشیدگی کو ختم کرنا، دھمکیوں کی سیاست سے گریز کرنا اور تنقیدوں کا محاذ کھولنے سے اعتراض کرنا ضروری ہے۔ امن و سکون کیلئے دکھائی دینے والے کام کرنے ہوں گے۔ اس خطہ میں کئی چیلنجس ہیں اس کے باوجود پاکستان اگر پیشرفت کرنا چاہتا ہے تو ہندوستان کو بھی مثبت پہل کرنی ہوگی۔ اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ برصغیر میں امن کے دشمن ہی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی لکیر کو مضبوط کرتے جارہے ہیں۔ ان امن دشمن طاقتوں کو ناکام بنانے کیلئے دونوں ملکوں کے سربراہوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی مارکٹ کی صورتحال تشویشناک
ہندوستان کو ان دنوں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روپئے کی قدر میں کمی جیسی صورتحال کا سامنا ہے جبکہ حکومت کو سرکاری ملکیت والی تیل کمپنیوں سے یہ کہنے کیلئے مجبور ہونا پڑا ہے کہ وہ اپنے خام تیل کی مستقبل کی خریداری کی قیمتوں پر روک لگادیں۔ نومبر میں اگر امریکہ نے ایران پر مزید تحدیدات نافذ کردیئے تو تیل کی کمپنیوں کو مزید نازک کیفیت سے دوچار ہونا پڑے گا اور روپئے کی قدر مزید گراوٹ کا شکار ہوگی۔ اس وقت ہندوستانی مارکٹ میں ایک انجان قسم کا بحران پیدا ہورہا ہے۔ شیر مارکٹ میں بعض کمپنیوں کے شیرز دھڑا دھڑ نیچے کی جانب جارہے ہیں۔ اس وقت ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر 72. 84 ہے تو آنے والے مہینوں میں ایک ڈالر کی قیمت 100 روپئے ہوجائے گی اور پٹرول بھی 100 روپئے کے نشانہ کو چھولے گا۔ آر بی آئی نے روپئے کی قدر میں گراوٹ کی اس رفتار میں کمی آنے کی توقع تو ظاہر کی ہے لیکن اس کے امکانات پر یقینی بات نہیں کہی ہے۔ اس وقت روپیہ ایشیائی ملکوں کی کرنسی میں سب سے زیادہ ابتری کا شکار ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ نے بھی ایشیاء میں مارکٹ کا رجحان تشویشناک بنادیا ہے۔ تاہم امریکہ اور چین کی اس تجارتی جنگ کا فائدہ ہندوستان کو ہونے کی امید پیدا کی گئی ہے لیکن اس وقت یہ امید واضح طور پر پوری ہوتے دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ روپئے کی قدر میں ابتری کا یہ مرحلہ مختصر مدتی ہے تو حکومت ہند کو ہی کچھ اندرون و بیرون ملک ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس وقت حکومت مقامی مینوفکچررس پر اورسیز قرضوں پر عائد پابندی کو نرمی کررہی ہے اور کارپوریٹ بانڈ کی بیرونی ملکیت کی حد کو بھی نرم بنادیا ہے۔ توقع کی جاتی ہیکہ ہندوستانی مارکٹ کی موجودہ صورتحال بہتر ہوجائے گی۔