ہند ۔ آسیان تعلقات
آسیان ملکوں نے ہندوستان سے ہند ۔ پسیفک خطہ میں زیادہ سے زیادہ موافق سرگرم رول ادا کرنے کی خواہش کرتے ہوئے چین کی بڑھتی طاقت کو بھی نوٹ کیا ہے۔ 10 آسیان ملکوں کے سربراہوں کی 69 ویں یوم جمہوریہ پریڈ تقریب میں شرکت اور ہندوستان کی دفاعی طاقت کے مشاہدہ کو ایک اہم موقع قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہند ۔ پسیفک خطہ میں ہندوستان کو ایک حکمت عملی پر مبنی سرگرم رول ادا کرنے کے لئے اس لئے زور دیا جارہا ہے کیوں کہ ہندوستان کی تیز تر معاشی ترقی کو آسیان ملکوں نے تسلیم کرلیا ہے۔ علاقائی امن اور استحکام کے لئے ہندوستان کی خدمات سے آسیان کا ہر ملک واقف ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے آسیان ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقات کرتے ہوئے ان ملک کے ساتھ یکساں تعاون عمل کو فروغ دینے کا عہد کیا۔ ہند ۔ آسیان کے درمیان گزشتہ 25 سال سے دوستی اور علاقائی تعاون کی مضبوط کڑی نے آج پھر ایک بار اس دوستی کو نئی جہت عطا کی ہے۔ نئی دہلی میں منعقدہ 25 ویں یادگار چوٹی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں جن اُمور کو تسلیم کیا گیا اور جن باتوں پر اتفاق رائے پیدا ہوا یہ ایک تاریخی لمحہ سے کم نہیں تھا۔ تمام قائدین نے مشترکہ خطرات جیسے دہشت گردی، انتہا پسندانہ سرگرمیوں اور دیگر جرائم کے خلاف متحدہ کوششوں کو مزید تیز کرنے سے بھی اتفاق کیا۔ ہند ۔ آسیان خطہ کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ اس خطہ میں تجارت کو فروغ دینے کے لئے تمام ملکوں کا باہمی تعاون ہی کامیابی کی کلید مانا جاتا ہے۔ ہندوستان کی معاشی ترقی آسیان ملکوں کے لئے ایک قوت ارادی کو فروغ دیتا ہے۔ ڈیجیٹل اکنامک، میری ٹائم ڈیزاسٹر مینجمنٹ، سائبر سکیورٹی، اسپیس ٹیکنالوجی وغیرہ میں عظیم تر تعاون کے ذریعہ ہی ہر ایک آسیان ملک مختلف شعبوں میں ترقی کی سمت پیشرفت کرسکتا ہے۔ یوم جمہوریہ ہند تقریب کے موقع پر 10 آسیان ملکوں کے قائدین کو مدعو کیا جانا بھی اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی۔ 1950 ء سے اب تک صرف 3 موقعوں پر ہی ہندوستان نے یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت کے لئے ایک سے زائد ملکوں کے سربراہوں کو مدعو کیا تھا اور وہ مہمان خصوصی کے طور پر شامل تھے۔ 1956 ء میں بہ یک وقت دو ملکوں کے قائدین برطانوی چانسلر اور چیف جسٹس آف جاپان کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ سال 1968 ء میں یوم جمہوریہ تقریب کے لئے سوویت لیڈر الگیژی کولیجن اور یوگوسلاویہ لیڈر ٹیٹو بھی مہمان خصوصی تھے اور 1974 ء میں بھی یوگوسلاویہ صدر نٹیو کو ایک بار پھر مدعو کیا گیا تھا جبکہ ان کے ہمراہ وزیراعظم سری لنکا بندرا نائیک بھی شریک تھے۔ جاریہ سال یوم جمہوریہ تقریب میں ایک سے زائد ملکوں کے قائدین کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا جانا ایک اچھی تبدیلی متصور کی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر طاقتور ملکوں کا محور تبدیل ہورہا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کو آسیان خطہ میں حاصل ہونے والی منفرد طاقت کو نمایاں اہمیت حاصل ہونا خوش آئند علامت ہے۔ اس لئے امریکہ جیسی سوپر طاقت نے بھی ہندوستان کی قوت کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا شروع کیا ہے۔ خاص کر سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد ہندوستان کی معیشت میں تیزی سے ترقی کو عالمی سطح پر ایک اچھی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ جب ساری دنیا نے ہندوستان کی فروغ پاتی معیشت کو تسلیم کرنا شروع کیا تو آسیان ملکوں میں ہندوستان کی معاشی قوت کو ایک منفرد مقام حاصل ہوا اگرچیکہ اس خطہ میں چین بھی معاشی اور نیوکلیر قوت ہے۔ مگر ہندوستان کے دیگر شعبوں جیسے انفارمیشن ٹیکنالوجی، فارماسیوٹیکل میں سستی ادویات کی پیداوار کو فروغ دینے میں کامیاب ہونے کو اس کے اعلیٰ مہارت کے حامل میان پاور کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ اختراعی صلاحیت کے حامل ہندوستانی شہریوں کی ساری دنیا میں پذیرائی ہورہی ہے اس لئے ہندوستان کو ایشیاء کا مضبوط ملک مانا جانا بھی ایک خوش آئند حقیقت ہے لیکن بدبختانہ بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک چین ہنوز ہندوستان کی صلاحیتوں کو دانستہ طور پر نظرانداز کرتا رہا ہے۔ یہاں سفارتی ڈپلومیسی کو بھی اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال آسیان ملکوں کے قائدین کا دورہ ہند اور یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت کے علاوہ ہند ۔ آسیان دوستی کی 25 ویں سالگرہ کی یاد میں منعقدہ چوٹی کانفرنس اس خطہ میں ترقی، خوشحالی کی نئی راہوں کو کشادہ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
مرکزی عام بجٹ اور عوام کی توقعات
نریندر مودی زیرقیادت حکومت جب یکم فروری کو اپنا بجٹ پیش کرے گی تو اس میں عام آدمی کے لئے کچھ نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے پہلے ہی یہ بُری خبر دے دی ہے کہ ان کا یہ بجٹ مقبول عام نہیں ہوگا۔ عوام نے بجٹ 2018 ء کے لئے جو توقعات پیدا کرلئے تھے انھیں مایوسی ہوگی۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی پارلیمنٹ میں اپنا بجٹ پیش کریں گے۔ لیکن 2019 ء کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بجٹ میں عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے جب کچھ نہیں ہوگا تو یہ مایوس کن ہی کہلائے گا۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد پہلی مرتبہ پیش ہونے والا یہ بجٹ جی ایس ٹی کی طرح ہی تلخ ہوسکتا ہے۔ مابعد جی ایس ٹی ملک کی معاشی پیداوار پر کیا منفی اثر پڑا ہے اس کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ حکومت خود اپنے آپ کو فریب دینے کا عمل کرے گی جس طرح جی ایس ٹی شرحوں کا نفاذ عمل میں آیا ہے۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی تمام ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل جی ایس ٹی کونسل کے اجلاس میں جی ایس ٹی کے منفی اثرات کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کرتے نظر آچکے ہیں اور اب عام بجٹ میں کوئی غیرمعمولی ٹیکس تجاویز نہ ہوں گے تو خاص کر اکسائز اور سرویس ٹیکس ڈیوٹیز کے تعلق سے کچھ راحت بخش قدم نہیں اُٹھایا گیا تو یہ عام آدمی پر مبنی سرکاری فینانس کی جامع رپورٹ ہوتی ہے۔ مگر مودی حکومت کا یہ بجٹ کرنسی، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے تحت فیصلوں کی نذر ہوجائے تو عام آدمی کی توقعات پر پانی پھر جائے گا۔