ہند و پاک کے مابین لفظی تکرار

ہندوستان اورپاکستان کے مابین گذشتہ کچھ وقت سے کشیدگی میںاضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ دونوں ملکوں کے مختلف گوشوں کی جانب سے غیر ضروری بیان بازیوںکی وجہ سے پڑوسی ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو مسلسل سبوتاج کیا جا رہا ہے ۔ یہ کوششیںپہلے ہی سے مشکل ہیں اور انہیں اور بھی مشکل بنایا جا رہا ہے ۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں اگر تعلقات بحال نہ بھی ہونے پائیں تو کشیدگی میں اضافہ نہیںہوپاتا تھا لیکن اب جس طرح کی بیان بازیاںاور عملا دھمکیاں و جوابی دھمکیاں جو دی جا رہی ہیں ان کے نتیجہ میں قیام امن کی کوششیں تو کہیں پس منظر میںچلی گئی ہیں اور کشیدگی اور سرد جنگ میںمزید اضافہ ہوتا جار ہاہے ۔ گذشتہ دنوں منی پور میںہندوستانی سکیوریٹی عملہ پر تخریب کاروں کے حملہ کے جواب میں دودن قبل ہندوستان کی سکیوریٹی افواج نے اپنے حدود میںاور پھر میانمار کی سرحد کے اندر جو کارروائی کی تھی وہ اپنی جگہ ملک کی دفاعی صلاحیتوں اور عزائم کو واضح کرنے کی ایک بہترین کوشش تھی لیکن اس کارروائی کے بعد دوسرے عناصر نے غیر ضروری طور پر جو بیان بازیاں شروع کی ہیں انکے نتیجہ میںہندوستان و پاکستان کے مابین کشیدگی میںاضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ یہ ایک طرح سے حکومت کے فیصلے اور سرکاری افواج کی کارروائی کوغلط تناظہر میں پیش کرنے کی کوشش ہے ۔ میانمار کی سرحد میں جو کارروائی کی گئی ہے اس کے بعدپاکستان کے تعلق سے بیان بازیاں اور پھر پاکستانی گوشوں کے رد عمل نے تعلقات کو بہتر بنانے کی بجائے بگاڑنے کا کام ہی کیا ہے ۔ بعض عناصر مقبوضہ کشمیر اور خود پاکستان میں اس طرح کی کارروائیوںکا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ امکانات حکومت یا فوج کی جانب سے نہیں بلکہ بالکلیہ غیر متعلقہ گوشوں کی جانب سے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے اشارے در اصل حکومت اور فوج کے امیج کو خراب کرنے اور بگاڑنے کی کوشش ہوسکتی ہے کیونکہ فوج یا حکومت کسی بھی طرح کی کارروائیوں کے تعلق سے جو منصوبے تیار کرتی ہے اس سے دوسرے گوشوں کو باخبر ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ اب اگر غیر متعلقہ گوشے اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو اس سے یقینی طور پر فوج کے کاز کی مدد نہیں ہوسکتی ۔

جس طرح پاکستان کے خلاف بیان بازیوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اسی طرح پاکستان میں بھی غیر متعلقہ گوشوں کی جانب سے ہی اس پر ردعمل ظاہر کیا جارہاہے ۔سابق صدر پاکستان پرویز مشرف نے آج ایک ایسا بیان دیا ہے جو کسی ملک کے سابق صدر کیلئے مناسب نہیں ہے ۔ مشرف کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے نیوکلئیر ہتھیار شب برات کے موقع پر آتشبازی کیلئے تیار نہیںکئے ہیں۔ ا سطرح انہوںنے ہندوستان کے ساتھ کسی تصادم کی صورت میں نیوکلئیر ہتھیار استعمال کرنے کی بالواسطہ طور پر دھمکی دی ہے ۔ اس طرح کی دھمکیاں ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوںمیں معاون نہیں ہوسکتیں۔ سابق صدر پاکستان کو ایسی دھمکیوں کی زبان استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ان کے ملک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اسے نیوکلئیر صلاحیت سے محروم کرناچاہتا ہے ۔ ہندوستان نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے داخلی امور میںمداخلت پسند نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اپنے امور میں کسی کی مداخلت قابل قبول ہوسکتی ہے ۔ اس طرح کا موقف رکھنے والے ملک پرجارحانہ عزائم کے الزامات عائد کرنا درست نہیں ہے ۔ پھر حکومتی سطح پر اپنے اپنے موقف کی وضاحت کی بجائے غیر متلعقہ افراد اگر ایسی بیان بازیاںکرتے ہیں تو اس سے اوربھی عدم سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے ۔ ہندوستان و پاکستان کے مابین تعلقات فی الحال جس نوعیت کے ہیں انہیں بہتر بنانے کیلئے عدم سنجیدگی سے کام نہیں بننے والاہے ۔ اس کیلئے ہر فریق کو مکمل سنجیدگی اور دلچسپی کامظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

موجودہ صورتحال میںہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کیلئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میںایسے عناصر پر کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کریں جو دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید کشیدہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور قیام امن کی کوششوں کوسبوتاج کرنے کے عزائم رکھتے ہیں۔ دونوںملکوںکے تعلقات میں بہتری پیدا ہونا نہ صرف ہندوستان ‘ نہ صرف پاکستان بلکہ سارے جنوبی ایشیا کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ اس سے سارے علاقہ کی صورتحال میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے ۔ اگر اس حقیقت کوسمجھتے ہوئے سبوتاج کے عزائم رکھنے والے عناصر پر قابو پانے کی کوشش کی گئی تو حالات کو بہتر بنانے میںمدد مل سکتی ہے ۔ دونوں ملکوںکو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک پوری سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیںہوتی اس وقت تک کشیدگی کو کم نہیںکیا جاسکتا اور سنجیدگی کا مظاہرہ غیر متعلقہ گوشوں پر قابو پانے اقدامات سے کیا جاسکتا ہے ۔