پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لئے فوجی کارروائیوں میں کامیابی کا ثبوت وہاں کے پرامن حالات سے ملتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے اندر کوئی بڑا دہشت گرد حملہ نہ ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان کی سیاسی راہداریوں میں عدم استحکام کی کیفیت نے وہاں کی فوجی ذمہ داریوں کو پھر سے مرکزی مقام ملا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت اور فوجی قیادت کا رشتہ مختلف مرحلوں میں مختلف نوعیت کا دکھا جا چکا ہے ۔ اس مرتبہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے بھی پاکستان کے اندر دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا موجب بنا ہے تو یہ ایک مثبت تبدیلی ہے ۔ پاکستان کو اپنی نیوکلیئر طاقت ہونے کا احساس ہے اس کے باوجود اس نے پڑوسی ملک کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے میں سیاسی سطح پرکوئی کوشش نہیں کی ۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں ہوں یا ہندوستان کا ایک مخصوص سوچ کا حامل سیاسی گروپ ہمیشہ ہندوستان اور پاکستان کو کشیدہ صورتحال سے دو چار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ہندوستان کا خوف دلا کر اپنے رائے دہندوں کو منوانا چاہتی ہے تو ہندوستان کا یہ ٹولہ بھی پاکستان کو ہر معاملہ میں گھسیٹ کر اپنا ووٹ بینک مضبوط کرتا رہا ہے ۔ لیکن رمضان کے دوران جنگ بندی کی خلاف وزریوں کے بڑھتے واقعات نے کشیدہ حالات کو مزید نازک بنا دیا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان کی فوج نے کہا کہ اپنے مشرقی ہمسایہ ملک ہندوستان کے ساتھ جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کشمیر کے متنازعہ حصہ میں جنگ بندی کے عہد کا اعادہ کرنے والے ملکوں کو اپنے عہد کا احترام کرنا چاہئے ۔ پاکستان کے فوجی جنرل آصف غفور نے نیوکلیئر طاقت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان تمام مسائل کی یکسوئی کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے ۔ بات چیت کے ذریعہ مسائل کی یکسوئی کی خواہش تو ہر دو جانب پائی جاتی ہے مگر اس میںجب سیاسی مفادپرستی حائل ہوتی ہے تو مسائل کو جوں کا توں برقرار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ جنگ ایک ناکام ڈپلومیسی کی بدترین نتیجہ کہلاتی ہے جب ایک خطہ کے دو ممالک نیو کلیئر طاقت کے حامل ہوں تو آپس میں گشیدگی کو ہوا دینے کے بجائے پرامن حالات کو تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ برصغیر میں جنگ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے لہذا مذاکرات ہی جاری رکھے جانے چاہئے ۔پاکستان کی شکایت ہے کہ مذاکرات میں پیشرفت کی کوشش کے درمیان ہی ہندوستان اس راہ سے دور ہوجاتا ہے۔ دونوں ملکوں نے دو مرتبہ جنگ کا تلخ تجربہ دیکھا ہے ۔ اب دونوںملکوں کے عوام بھی اپنے شعوری پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ کشمیر مسئلہ پر دونوںملکوں کا جو موقف ہے اس کو سفارتی سطح پر ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔ اس حقیقت سے ہر دو واقف ہونے کے باوجود بعض سیاسی مفاد پرستی کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو تلخیاں پیدا کر دی جاتی ہیں ۔ ہندوستان اور پاکستان کی افواج کا آمنا سامنا ہونا فطری امر ہے لیکن اپنے معاہدہ کی خلاف ورزی کرنا اپنے ہی عہد کے توہین کرنے کے مترادف ہے ۔ پاکستان کی اس شکایت کا نوٹ لیا جائے تو اس سال ہی سرحد پر ہندوستان سے پاکستان کی جانب والے لائن آف کنٹرول کے اس پار 1,577 مرتبہ نشانہ بنایا ہے جس میں 48افراد ہلاک 265 زخمی ہوئے ۔ جبکہ ہندوستان نے جنگ بندی کے خلاف رزیوں کا پاکستانی فوج پر الزام قائد کرتے ہوئے سرحدی مواضعات میں رہنے والوں کی زندگیوں کی ابتری کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹہرایا ۔ وزارت خارجہ ہند نے پاکستان کو ہی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار بتانا ۔۔۔یہ صرف 2018 میں ہی دونوں ملکوں کے فوجی عہدیداروں نے 29 ؍ مئی کو جنگ بندی کے معاہدہ کا احیاء کرنے کا اعلان کیا مگر صورتحال اس کے برعکس واقع ہوئی اگر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے تو دونوںجانب مضبوط پرامن بقائے باہم کی راہ نکالی جاسکتی ہے ۔ موجودہ میکانزم کو بروے کار لا کر وسیع قلبی کے ساتھ سرحدوں کو پرامن علاقہ میں تبدیل کرکے وہاں رمضان المبارک کی عید کے دن اس کا پرچم بلند کیا جاسکتا ہے ۔ سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعہ ہی ایک عظیم تر معاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ عید کے موقع پر دونوں ملکوں کے عوام کو خوشی مہیا کرتے ہوئے عید کی خوشیوں کو دوبالا کیا جاسکتا ہے ۔