ہند۔ افغان تعلقات میں مزید پیشرفت اور استحکام

نئی دہلی۔ 16؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ طالبان کے مضبوط گڑھ والے علاقہ قندھار میں ہندوستان کے تعاون سے افغانستان کی پہلی زرعی یونیورسٹی کا قیام ترقی کی سمت اہم پیشرفت ہے۔ جنگ زدہ اس ملک میں ہند۔ افغان اسٹریٹیجک پارٹنرشپ میں بھی مضبوطی آرہی ہے۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات مستحکم ہیں۔ ہندوستان کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہمسایہ ملک ایک مضبوط، خوشحال اور معاشی طور پر آزاد ہو۔ افغانستان میں بھی اسٹریٹیجک ترجیح حاصل ہے۔ ہماری حکمت ِ عملی پر مبنی شراکت داری کے معاہدہ کے لئے بھی زرعی یونیورسٹی ایک کلیدی عنصر ہے۔ سلمان خورشید جو تارنک فارم میں افغان نیشنل اگریکلچرل سائنس اینڈ ٹکنالوجی یونیورسٹی کے افتتاح کے بعد قندھار سے کل رات نئی دہلی واپس ہوئے ہیں، کہا کہ ایک خوشحال افغانستان کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا ہم نے اس زرعی یونیورسٹی میں حصہ لینے کو مناسب سمجھا۔ یہ پراجکٹ ہند۔ افغان حکمت ِ عملی والی شراکت داری کے لئے نہایت ہی اہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تارنک فارم میں دراصل القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کا اصل رہائشی مقام ہے۔ 1990ء کے دہے میں اس مقام سے القاعدہ نے کئی منصوبے بنائے تھے۔ نیویارک اور واشنگٹن میں پنٹاگن پر حملے کرنے کے لئے طیاروں کا اغواء کرنے کا منصوبہ یہی بنایا گیا تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں تقریباً 3 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سلمان خورشید نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہندوستان نے پہلے ہی افغان طلبہ کے لئے 614 زرعی اسکالرشپس کی پیشکش کی ہے جو ہندوستان کے زرعی انسٹی ٹیوٹس میں تربیت حاصل کررہے ہیں۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ ہندوستان میں تربیت حاصل کرنے والے طلبہ ایک دن اپنے ملک کی زرعی یونیورسٹی میں پروفیسر بن کر واپس ہوں گے۔ اس یونیورسٹی کے لئے ہندوستان نے 8 ملین امریکی ڈالر خرچ کئے ہیں۔ افغانستان کے 80 فیصد عوام اپنے گزارے کے لئے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ افغانستان کا تقریباً 60 فیصد جی ڈی پی زرعی شعبہ سے حاصل ہوتا ہے جہاں پر ہنوز زرعی کاموں میں عصری ٹکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ صدر افغانستان حامد کرزئی کے تعلق سے وزیر خارجہ سلمان خورشید نے کہا کہ حامد کرزئی اس زرعی یونیورسٹی کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ اس یونیورسٹی کو اپنی اہم میراث کا مسئلہ مانتے ہیں۔ کرزئی حکومت نے 2,810 ایکڑ اراضی معہ اریگیشن سہولت کے ساتھ یونیورسٹی کے حوالے کی ہے۔ عمومی طور پر یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔ ہم نے افغانستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کی سمت قدم اُٹھایا ہے۔