ہندوستان اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی دیرینہ ہے۔ اب چین نے سرحد پر نئی سڑک کی تعمیر کے ذریعہ سیکوریٹی کے سنگین خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ یہ سڑک دونوں ملکوں کے سفارتی سطح پر پیدا شدہ کشیدہ تعلقات کو مزید ابتر کرسکتی ہے۔ سڑک کو چین، ہندوستان اور بھوٹان کی سرحدوں سے ملایا جارہا ہے۔ سڑک کی تعمیر کو روکنے کیلئے ہندوستانی فوج پر دراندازی کا الزام عائد کرنے والے چین کے عہدیداروں کو اس مسئلہ پر بات چیت کرنی چاہئے تھی۔ دونوں ملکوں کے قائدین کو اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے حکمت عملی پر مبنی بات چیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ باہمی تعلقات سے اختلافات کو ختم کرنا ہی ہر دو کیلئے فائدہ مند ہے جیسا کہ عالمی سطح پر پڑوسی ملکوں اور دیگر ملکوں نے مل کر اپنے اختلافات کو ختم کرنے مذاکرات کا مؤثر طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس وقت چین، روس، چین۔ امریکہ اور چین۔ یوروپی یونین کے درمیان تیزی سے مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں تو ہندوستان کے ساتھ چین کی بات چیت کیوں نہیں ہوسکتی۔ ان ملکوں کیلئے اعلیٰ قائدین نے باہمی طور پر مؤثر بات چیت شروع کی ہے۔ توقع یہی کی جاتی ہیکہ چین اور ہندوستان مل کر اسی سطح پر بات چیت کریں گے۔ ہندوستانی اور چینی قائدین کے درمیان کارآمد تعلقات کو فروغ دینے کیلئے دونوں جانب کے سرکاری محکموں کا رول اہم ہوگا۔ جب چین نے امریکہ کے ساتھ وسیع تر مذاکرات شروع کئے ہیں تو ہندوستان کو تمام شعبوں میں باہمی تعلقات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور صدر چین ژنگ پن نے اس سال کی کئی مرتبہ باہمی ملاقات کی ہے۔ عالمی سطح پر فراہم کردہ پلیٹ فارم سے استفادہ کرتے ہوئے دونوں قائدین نے خوشگوار گرمجوشانہ بات چیت کی ہے۔ خاص کر بریکس اور جی 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر مودی اور ژنگ پنگ کی ملاقات کو اہمیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح کے پلیٹ فارمس باہمی مذاکرات کیلئے میکانزم کا کام کرتے ہیں اور خصوصی نمائندہ بات چیت ہوسکتی ہے جس میں سرحدی تنازعہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔ سرحدی تنازعہ کے مسئلہ پر چین کو اپنی ہٹ دھرمی ترک کرنے کی ضرورت ہے اور اسے ہندوستان کی شکایت کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جوان بغیر اطلاع کے اپنے طور پر سڑک کی تعمیر کیلئے علاقے میں داخل ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ہندوستان کو اپنی سرحد کی حفاظت کی فکر ہوتی ہے۔ ایسے میں چین کے اقدامات یا دراندازی کے معاملہ شدید تشویش کا باعث ہوتے ہیں۔ سرحد پر حالات کو جوں کا توں موقف رکھنے کے بجائے اس عمل کو متاثر کرنے والے اقدامات اور سڑک کی تعمیر سے ملک کی سلامتی پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ سرحد پر امن کا ہر کوئی خیرمقدم کرنا چاہے گا۔ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرلیا جانا چاہئے۔ ہندوستان اور چین کو اپنے 1967 میں اس علاقہ میں ہوئی جھڑپوں کے بعد ہونے والے کشیدگی کا باعث بننے والے واقعات کو فوری ترک کرنا ہوگا۔ دونوں ملک دوستانہ تعلقات کے حق میں ہوں تو اپنی خودمختاری اور فوائد کی حفاظت کیلئے پرعزم ہوں گے جہاں تک سکم کے علاقہ میں سرحد کی حدبندی کے تعین کا سوال ہے اس پر چین اور ہندوستان نے اپنی حدبندی کو قطعیت دی ہے لیکن اس کے باوجود وقتاً فوقتاً اس پر کشیدگی افسوسناک ہے۔ ہندوستان اور چین کی سرحد 3488 کیلو میٹر ہے جسمیں سے سکم کی سرحد 220 کیلو میٹر طویل ہے۔ چین کی فوج کی دراندازی کے واقعات ماضی میں بھی ایک سے زائد مرتبہ ہوچکے ہیں۔ جموں کشمیر، اتراکھنڈ اور اروناچل پردیش میں چین نے کئی بار دراندازی کی ہے۔ سکم کے تعلق سے 1890 کے معاہدے کی پہلی شرط یہی ہیکہ سکم اور نیٹ کی سرحد کو دونوں ممالک تسلیم کریں اور دونوں نے سکم کی سرحدی حدبندی کو تسلیم بھی کیا ہے۔ اس کے باوجود چین نئی سڑک تعمیر کرکے حالات کو کشیدہ یا مشتعل کرنے والی کارروائی کرتا ہے تو ہندوستان کیلئے تشویش کا باعث ہوں گے۔ لہٰذا چین کی قیادت کو ہندوستان کی تشویش میں اضافہ سے گریز کرتے ہوئے سرحد پر کسی بھی تبدیلی کی کوشش کو فوری ختم کرنی چاہئے۔ جب مسئلہ کی نوعیت کا علم ہے تو اس پر غوروخوض کرکے بات چیت کے ذریعہ یکسوئی کی مساعی کی جاسکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے تھنک ٹینک نے باہمی، علاقائی اور عالمی سطح پر مذاکرات کی ہیں ان کو جاری رکھنا چاہئے۔
پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں پر پابندی
پاکستان نے ممنوعہ دہشت گرد تنظیم کے سربراہ حافظ سعید کی حمایت والی تحریک آزادی جموں و کشمیر تنظیم پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ یہ جماعت الدعوہ کا نیا نام سمجھا جارہا تھا جس کے اصل کارکنوں کو سال 2008ء میں ممبئی حملوں کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ پاکستان نے ایک بہتر قدم اٹھا کر دہشت گردی کی حمایت یا اس سے وابستہ تنظیموں کا عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا ہے۔ پاکستان کی نیشنل کاؤنٹر ٹریرزم اتھاریٹی نے جماعت الدعوۃ سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی ہیں۔ ہندوستان کی اس شکایت کے تناظر میں کہ پاکستان دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ تحریک آزادی جموں و کشمیر تنظیم پر پابندی کیلئے پاکستان کا اقدام ایک اچھی تبدیلی سمجھی جائے گی۔ گذشتہ جنوری میں ہی پاکستان نے حافظ سعید کو نظربند کردیا تھا۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائیوں کیلئے بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان اگر پاکستان نے دہشت گردوں کے اطراف اپنا حصار مضبوط کرنا شروع کیا ہے تو اس سے امن کی بحالی اور انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس کے باوجود اس پر الزام ہیکہ وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کو پرورش کررہا ہے۔ چند دن قبل ہی صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے دہشت گردوں کا تعاقب کرکے انہیں ختم کرنے کیلئے پاکستان پر ڈرون برسانے کی دھمکی دی تھی۔ شاید امریکی دباؤ نے پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کیلئے مجبور کردیا ہو۔ پاکستان نے اپنے طور پر کئی مرتبہ یہ واضح کردیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں 5000 دہشت گردوں کے اکاؤنٹس بھی منجمد کردیئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو کس کی سرپرستی حاصل ہے اس کی گہرائی سے چھان بین کی جائے ۔