ہندو راشٹرا

اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تعلق سے وزیراعظم نریندر مودی کی دوسری میعاد کے دوران کیا فیصلے ہوں گے اس پر غور کرنے کا عمل تو جاری رہے گا لیکن بی جے پی کی شاندار کامیابی کے بعد این ڈی اے کے پارلیمانی پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے اپنے قبل ازیں دئیے گئے نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے ساتھ اب ’ سب کا وشواس ‘ کو شامل کیا ہے ۔ ان کی تقریر کا لب لباب کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے ملک میں اقلیتوں کے اندر پائے جانے والے خوف کی جانب واضح اشارہ کیا ہے ۔ اپنے آئندہ پانچ سالہ لائحہ عمل کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے اندر سماج کو مضبوط بنانے اور اقلیتوں کے اندیشوں کو دور کرتے ہوئے تحفظ کے احساس کو اجاگر کرنے پر زور دیا ہے ۔ نریندر مودی کی تقریر بظاہر ان کے سیاسی عزائم کی درست عکاسی کرتی ہے یا نہیں ، یہ غور طلب ہے ۔ اصل مسئلہ دستور ہند کو بچانے اس کی اصل روح کو برقرار رکھنے کا ہے ۔ اگر بی جے پی حکومت دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا وعدہ کرتی ہے تو ملک کے حالات تشویشناک نہیں ہوں گے ۔ اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہندوتوا عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ بی جے پی کے 2019 انتخابات کے لیے جاری کردہ منشور اور انتخابی کامیابی کے بعد این ڈی اے پارلیمانی پارٹی اجلاس کی تقریر کے جلسوں میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے ۔ بی جے پی نے منشور میں اپنی درپردہ پالیسیوں کی تقریر کے جملوں میں بڑا فرق دکھائی دیتا ہے ۔ بی جے پی نے منشور میں اپنی درپردہ پالیسیوں کا اشارہ دیا ہے یعنی ہندوستان کو ایک مشن اور ایک سمت کے تحت لے جایا جائے گا ۔ مودی نے دوسری میعاد کے لیے جہاں اپنی تقریر تیار کرتے ہوئے ہندوستانی اقلیتوں کے تعلق سے نیک خیالات ظاہر کئے وہیں گوشت رکھنے کے الزام میں گاؤ رکھشکوں کے حملوں پر خاموشی اختیار کرلی ۔ مودی قیادت میں بی جے پی نے اپنی انتہا پسندانہ یا شدت پسندانہ نظریہ کو روبہ عمل لانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور اپنی دائیں بازو کی پالیسی کے لیے زبردست حمایت حاصل کرنے قوم پرستی کا استعمال کیا اور اس طرح خاموشی کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کے خلاف جذبات کو مجتمع کرتے ہوئے دیہی اور شہری علاقوں کے عوام کو سیاسی حکمت عملی کا علمبردار بناکر ہندوتوا کے نظریہ کو فروغ دیا ۔ ہندوتوا کا کٹر پسندانہ نظریہ اس تیزی کے ساتھ سرایت کر گیا کہ اس کے نتیجہ میں جمہوریت اور دستور ہند کی دھجیاں اڑانے والا بی جے پی کا اصل نظریہ سرگرم ہوگیا ہے ۔ جمہوریت ، قوم پرستی اور کثیر الوجود بقائے باہم کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا جانے لگا ہے ۔ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کا ہی نتیجہ یہ نکلا کہ آج بی جے پی سارے ملک کی ناقابل شکست طاقت سمجھی جانے لگی ہے ۔ بی جے پی نے یہ حکمت عملی کس طرح اختیار کی اور اسے اس میں کامیابی پے در پے ملنا شروع ہوئی ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کیوں کہ کانگریس کی انتخابی حکمت عملی کو نقل کرتے ہوئے ہندوتوا کو عزیز رکھنے والے رائے دہندوں کا ووٹ بینک بنالیا ۔ کانگریس نے او بی سیز ، دلتوں اور آدی واسیوں کے اندر اپنی بنیاد مضبوط کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی تھی اس کی نقل کرتے ہوئے بی جے پی نے ہندوتوا کے واحد ایجنڈہ کو عوام الناس کے اندر پوری قوت سے پھیلادیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بے تحاشہ مہنگائی اور بڑے پیمانہ پر رشوت خوری کے واقعات کی پرواہ کئے بغیر عوام کی کثیر تعداد نے فرقہ پرستی کی پالیسیوں کی حمایت کی ۔ اپوزیشن کانگریس عوام کو یہ بتانے میں ناکام رہی کہ فرقہ وارانہ سیاست سے قوم کو خطرات لاحق ہیں ۔ ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کے منصوبے پر عمل شروع کرتے ہوئے آر ایس ایس نے اپنے جلسے بھی منعقد کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔ دلتوں کو بھی ہندوتوا کے قریب لانے کے لیے ایک خاص حکمت اختیار کرلی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ، آر ایس ایس نے مرکزی مقام بنالیا ہے ۔ ہندوتوا کی آڑ میں قوم پرستی کے ڈرامے اسٹیج کرتے ہوئے قوم پرستی کا ہندوتوا برانڈ ’ ہندو راشٹرا ‘ کی شکل میں سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس ملک کا سیکولر شہری اور جمہوریت پسند معاشرہ ان سازشوں کو کامیاب ہونے دے گا یہ سوال کھٹکتا رہے گا ۔۔