ہندو دہشت گردی ‘ اصطلاح پر اعتراض

شکوہ ظلمت شب سے تو بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ہندو دہشت گردی ‘ اصطلاح پر اعتراض
حالیہ عرصہ میں دہشت گردی کو ایک نئے انداز سے پیش کرتے ہوئے ہیجان پیدا کرنے کی کوششوں میں شدت پیدا ہوگئی تھی ۔ ہر گوشہ کی جانب سے دہشت گردی کو اپنے انداز میں پیش کرتے ہوئے ہیجان پیدا کیا جارہا ہے ۔ گذشتہ تقریبا ایک دہائی میں دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کی کوششوں میں اس قدر شدت پیدا ہوگئی تھی کہ دہشت گردی اور اسلام کو ایک ہی سکہ کے دو رخ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اسلام امن و آشتی اور سلامتی کا مذہب ہے ۔ اسلام نے سارے عالم میں سلامتی کو فروغ دینے کا پیام دیا تھا ۔ جب اس پیام کو اس کے حقیقی معنوں میں سمجھا نہیں گیا اور اس پر عمل آوری نہیں ہوسکی تو پھر بدامنی کا سلسلہ پیدا ہوگیا ۔ بدامنی کی اپنی وجوہات ہیں اور یہ نوع انسانی کی ہی خامیوں کا نتیجہ ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اسلام ایک امن پسند اور سلامتی کو فروغ دینے والا مذہب ہے دہشت گردی کو اس سے مسلسل جوڑتے ہوئے اسلام کی شبیہہ متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کچھ گوشے یہ بھی کہنے لگتے ہیں کہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہئے اور دہشت گردوں کا خود کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ صرف دہشت گرد ہوتے ہیں ۔ ہندوستان میں خاص طور پر سرکاری سطح پر بھی جہادی ‘ یا اسلامی دہشت گردی کی اصطلاحات کے استعما ل کو منظم انداز میں فروغ دیا گیا اور اب یہ تاثر پیدا کردیاگیا ہے کہ دہشت گرد صرف مسلمان ہوتے ہیں۔ اس پر جب اعتراضات کئے جاتے ہیں تو ان اعتراضات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا ۔ گذشتہ عرصہ میں ملک کی ہندو دہشت گرد تنظیموں کی کارستانیوں اور بم دھماکوں کے واقعات کا انکشاف ہوا تھا جس کے بعد ان تنظیموں کے کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیلوں کو بھی بھیجا گیا ہے ۔ جب اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے ہندو دہشت گردی یا زعفرانی دہشت کی اصطلاح عام ہونے لگی ہے تو اس پر اعتراض ہو رہا ہے ۔ ایک طرف اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو دہشت گردی سے جوڑا جارہا ہے تو دوسری طرف ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کے استعمال پر اعتراض ہو رہا ہے ۔ یہ دوہرے معیارات ہیں اور یہ واضح ہے کہ ہر معاملہ میں ایسا ہونے لگا ہے ۔
گذشتہ دنوں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’ ہندو دہشت گردی ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ راج نا تھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ہندوستان رشی ‘ منی اور سادھو سنتوں کی سرزمین ہے ۔ یہاں کے لوگ ساری دنیا کو ایک خاندان کا اصول مانتے ہیں ایسے میں کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں ؟ ۔ وزیر داخلہ نے یہ تصویر کا ایک رخ پیش کیا ہے ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ ‘ مکہ مسجد میں ہوا بم دھماکہ ‘ مالیگاوں میں ہوئے بم دھماکے یہ سب ہندو دہشت گردوں کی کارروائیاں ہیں اور ان تنظیموں کے کارکن مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے جیلوں میں ہیں ۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ کے اعتراض سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندووں کی سرزمین ہے ۔ یہ تقسیم پسندانہ اور متعصب ذہنیت کی علامت ہے ۔ اس کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی تشخص کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہئے ۔ جس طرح وزیر داخلہ کو ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر اعتراض ہوا ہے اسی طرح انہیں دہشت گردوں کو کسی اورمذہب سے جوڑنے کی کوششوں کی بھی مذمت کرنی چاہئے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ تاثر پیدا ہوگا کہ وہ صرف ہندووں کی نمائندگی کیلئے وزیر داخلہ بنے ہیں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ یہ تاثر ہندوستانی دستور میں تمام مذاہب کے ماننے والوںکو دئے گئے اختیارات کے منافی ہوگا ۔ دستور میں فراہم کردہ ضمانتوں کو نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت یا اس کے ذمہ داروں کیلئے بہتر نہیں کہا جاسکتا ۔
جس طرح راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس ملک کے رشی منیوں نے ساری دنیا کو ایک خاندا ن قرار دیا تھا اور محبت کی تعلیم دی تھی اسی طرح انہیں یہ اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب نے نفرت یا تقسیم کی تعلیم نہیں دی ہے ۔ ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو محبت اور اخوت کی تعلیم دی ہے تاکہ دنیا میں امن و سکون اور سلامتی کی فضا برقرار رہ سکے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ گوشے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ان تعلیمات کو الٹ پھیر کرکے پیش کرتے ہیں یا پھر ایسا کرنے والوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ جس طرح سے راج ناتھ سنگھ نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پر اعتراض کیا ہے اسی طرح انہیں دوسرے مذاہب سے بھی دہشت گردی کو جوڑنے کی کوششوں پر اعتراض کرنا چاہئے اور کم از کم سرکاری سطح پر تحقیقاتی ایجنسیوں میں ان اصطلاحات کے استعمال کو روکنا چاہئے جو ان کے اپنے دائرہ اختیار میں ہے ۔