جو ابن الوقت ہیں ، قول و عمل میں فرق رکھتے ہیں
مجھے معلوم ہے جو آج ہوگا ، کل نہیں ہوگا
ہندوستان کی بیرون ملک تذلیل
ہندوستان کی بیرون ہند تذلیل کرنے والوں میں موجودہ حکمران نریندر مودی کا نام سرفہرست آرہا ہے۔ دورۂ چین، منگولیا اور دیگر ملکوں سے دورہ کے دوران ان کی زبان سے نکلے الفاظ پر شدید تنقیدیں ہورہی تھیں۔ اب انہوں نے ایک اور ریمارک کرکے ہندوستانیوں کے دل دُکھائے ہیں۔ انہوں نے اپنے اور حکومت اور آج کے ہندوستان کو ہی ترقی پسند، خوشحال اور پرامن ملک بتانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی حکومت میں ہر ایک کے خوش ہونے کا ادعا کیا جارہا ہے۔ مودی کی زبان تلوار کی طرح تیز ہوکر ہندوستانیوں کے جذبات پر ضرب لگا رہی ہے۔ ان کا یہ کہنا صد افسوس ہے کہ ان کی حکومت سے پہلے ہندوستان میں رہنے والے شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ مودی اپنی خود سرائی کی خاطر ہندوستان کی تاریخ اور آزادیٔ ہند کی قربانیوں، ماضی کی قدآور، ممتاز شخصیتوں کی خدمات سے آراستہ اس ہندوستان کی توہین کرتے جارہے ہیں۔ چین اور جنوبی کوریا میں ان کا ہندوستان کے تعلق سے ریمارک کہ ’’ان کی حکومت کے آنے سے پہلے ہندوستانیوں کو اپنے ملک میں پیدا ہونے پر شرم محسوس ہورہی تھی‘‘ مودی کا ریمارک شدید احتجاج کو دعوت دے سکتا ہے مگر ہندوستانی تہذیب کے علمبرداروں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس کیلئے ہندوستان پر اٹھنے والی اُنگلیوں یا اس ملک کے تعلق سے کئے جانے والے بے ہودہ ریمارکس پر بھی خاموش ہیں، البتہ ان دنوں سوشیل میڈیا کے ذریعہ نریندر مودی کی خرابیوں اور ان کی زبان درازیوں پر کھل کر تبصرے ہورہے ہیں۔ مودی کے اس ریمارک پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنے ملک میں جنم لینے پر شرم محسوس ہورہی تھی، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مودی وزیراعظم کی حیثیت سے منتخب ہونے سے قبل کسی اور ملک کے باشندے تھے۔ اس لئے انہیں ان کے وزیراعظم بننے سے قبل ہندوستانی ہونے پر شرم محسوس ہونے کا احساس نہیں تھا۔ مودی کی باتیں ان کے چاہنے والوں کو بھی کڑوی لگنے لگی ہیں۔ جب کوئی طاقت حد سے زیادہ خود پر خوش فہمیاں مسلط کرلیتی ہے تو اسے سامنے ہر چیز چھوٹی اور حقیر دکھائی دینے لگتی ہے۔ مودی نے ہفتہ کے دن شنگھائی میں ہندوستانی برادری کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ’’اب آپ کو فخر محسوس ہورہا ہوگا کہ آپ ایک ایسے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں ان کی حکومت نے اقتدار حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت کی تبدیلی کے لئے غیرمقیم ہندوستانیوں نے توقعات پیدا کی تھی۔ مودی نے اپنا یہ بیان پیر کے دن سیئول میں بھی ہندوستانیوں کے سامنے دہرایا تھا جس کو ٹوئٹر پر پیش کیا گیا کہ 40 ہزار سے زائد ٹوئٹر مبصرین نے مودی کے مغرور آمیز بیان کی مذمت کی ہے۔ وزیراعظم مودی خود اپنے ملک کی بیرون ملک توہین کرتے جارہے ہیں تو عوام کو ان کی اس طرح کی بیان بازی کا اندازہ کرلینا چاہئے کہ بحیثیت وزیراعظم وہ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سے لے کر اب تک کی خدمات اور قربانیوں کو انہوں نے نظرانداز کردیا ہے۔ جدوجہد آزادی میں ہندوستان کے قائدین کے رول اور ان کی گراں قدر خدمات پر ایک تنقید ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک دستوری عہدہ کی حامل شخصیت کو بیرونی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں اور ملک کے ماضی پر اُنگلی اٹھائے اور عوام کو یہ باور کراتے ہوئے ہندوستان کو بدنام کرے کہ مودی کی حکومت سے قبل کا ہندوستان ایک ملک نہیں تھا اور اس ملک کو چلانے والے کسی مہذب ملک کے باشندے نہیں تھے۔ مودی کے بیانات سراسر توہین ہند کے مترادف ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ پر فخر کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے جہاں ہر شہری کو اپنے ملک پر فخر ہے، ہر ہندوستانی کو یہ فخر ہے کہ وہ ایک ہندوستانی ہے۔ یہاں وزیراعظم کی حیثیت سے مودی ہوں یا کوئی اور دوسرا اسے اپنے ہندوستانی ہونے کا زعم ہوگا اور اس زعم و فخر کی طاقت کو لے کر ساری دنیا میں ہندوستانی نمائندگی کو وسعت دیتا آرہا ہے۔ ہندوستان کو ہر ایک ہندوستانی کے خون و پسینہ سے بنایا گیا ہے۔ اس ملک کا زعفرانی وزیراعظم اگر یہ کہتا ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنے ملک کی وجہ سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے تو پھر اس خیال کو ظاہر کرنا ایک ناپسندیدہ اور معیوب بات ہے۔ اس سے مہاتما گاندھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر قائدین کی جدوجہد سے حاصل کردہ ہندوستان کی بیرون ملک برائی ہوئی ہے۔ مجاہدین آزادی، تاریخی شخصیتوں اور اس ملک کی معیشت سے وابستہ عوام کی بھی افسوسناک توہین سمجھی جائے گی۔