ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری

سب کے ہونٹوں پر تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل مرا
ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری
ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری ایسا لگتا ہے کہ اب بین الاقوامی مسئلہ بنتی جا رہی ہے ۔ جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے فرقہ پرستوں کے عزائم بہت بلند ہوگئے ہیں اور دھڑلے کے ساتھ دستور ہند کی دھجیاں اڑانے لگے ہیں ۔ دستور میں تمام مذاہب کے یکساں احترام اور مساوات کی بات کہی گئی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ کچھ جنونیت پسند لوگ دستور ہند سے بھی کچھ الفاظ تبدیل کرنے کی وکالت کرنے لگے ہیں اور حکومت اس طرح کے مطالبات کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے ان پر مباحث کی گنجائش نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ گذشتہ مہینے ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر صدر امریکہ بارک اوباما کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا ۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھی اوباما کو مدعو کرکے بہت خوش ہو رہے تھے ۔ اوباما وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہیں یوم جمہوریہ تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا گیا ۔ بی جے پی قائدین اور حکومت کے وزرا اس کو حکومت کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے واہ واہی بٹورنے میں مصروف تھے ۔ اوباما کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا ہے کہ اپنے دور اقتدار میں وہ دوسری مرتبہ ہندوستان آئے تھے ۔ بی جے پی حکومت اس بات کا سہرا بھی اپنے سر لے رہی تھی ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اقدام خود بی جے پی اور مرکزی حکومت دونوں کیلئے الٹا ہوگیا ہے ۔ اوباما نے اپنے دورہ ہند کے اختتام سے عین قبل بی جے پی اور حکومت کو اپنے اس ریمارک کے ذریعہ الجھن میں ڈال دیا تھا کہ مذہبی رواداری کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے ملک میں اقلیتوں کی حالت زار کے تعلق سے بھی اظہار خیال تھا ۔ یہ ایسی صورتحال تھی جس کی بی جے پی یا وزیر اعظم کو امید نہیں تھی ۔ ابھی حکومت اور اس کے وزرا اس جھٹکے سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ اوباما نے ایک ایسا ریمارک کردیا جس نے مودی حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کردیا ہے ۔ اوباما نے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری اتنی شدید ہوگئی ہے کہ اگر آج گاندھی جی زندہ ہوتے تو اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وہ سکتے میں آجاتے ۔
جس طرح سے ہندوستان بھر میں مذہبی عدم رواداری کو مودی حکومت کے اقتدار کے ابتدائی نو مہینوں ہی میں عروج حاصل ہوا ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن کی جانب سے مسلسل حکومت کو نشانہ بنایا جارہا تھا کہ این ڈی اے حکومت میں فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے ناپاک عزائم ظاہر کرنے شروع کردئے ہیں اور دھڑلے کے ساتھ قانون اور دستور کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ حکومت اس تعلق سے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی اور اس نے ایسی طاقتوں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کرنے سے گریز کیا ہوا تھا ۔ یہ تاثر بھی دھیرے دھیرے مستحکم ہوتا جا رہا تھا کہ حکومت ان طاقتوں کو بالواسطہ طور پر خود آگے بڑھا رہی ہے تاکہ اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے ۔ تاہم صدر امریکہ نے اب جو ریمارک کیا ہے اس سے حکومت کی الجھن میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ اوباما نے جس طرح سے عدم رواداری کی شدت کو ظاہر کیا ہے اس سے حکومت کو اپنے آئندہ اقدامات کے تعلق سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ آج جو بیان اوباما نے جاری کیا ہے ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں دوسرے ممالک کی زبان سے بھی سامنے آئے اور خود اقوام متحدہ میں ایسا اظہار خیال کیا جائے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ہندوستان کی ایک روشن تصویر داغدار ہوجائیگی ۔ اس سے ملک کا وقار مجروح ہوگا اور عالمی سطح پر ملک کی جو شبیہہ بنی ہوئی ہے وہ مسخ اور متاثر ہوکر رہ جائے گی ۔ اس شبیہہ کو متاثر ہونے سے بچانے اور ملک کے وقار کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
آج جس طرح سے ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی بات کی جا رہی ہے ۔ جس طرح سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوںکو جبرا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ انہیں دھمکایا جا رہا ہے یا لالچ دیا جا رہا ہے یہ سب کچھ مذہبی عدم رواداری کی واضح مثالیں ہیں اور حکومت اس تعلق سے عمدا خاموشی اختیار کرتے ہوئے ان طاقتوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے جو ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے درپہ ہیں ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے دستور کے مطابق سبھی مذاہب کے یکساں احترام اور مساوی سلوک کو یقینی بنائے ۔ حکومت نے اقتدار سنبھالتے وقت ایسا کرنے کا حلف لیا تھا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا اور اپنے ادنی سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے مصلحت سے کام لیا جاتا ہے تو پھر دنیا بھر میں ہندوستان کی جو ایک بہترین شبیہہ ہے وہ متاثر ہوگی اور ملک کا وقار داؤ پر لگ جائیگا ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی ۔