ہندوستانی ورکرس کے مسائل

حکومت ہند کے اعداد و شمار کے مطابق خلیجی ممالک بحرین، کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور عمان میں تقریباً 6 ملین ہندوستانی ورکرس مقیم ہیں۔ ان میں سے متعدد ورکرس کو ہندوستان سے خلیجی ملکوں کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا جاتا رہا ہے مگر دھوکہ باز ایجنٹوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ بیرون ہند ملازمتوں کا جھانسہ دینے والے ایجنٹس ان ہندوستانی ورکرس کو جھوٹے وعدے کرکے بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے بیرون ملک منتقل کردیئے ہیں۔ ایسے ہی یا باقاعدہ طورپر ویزا حاصل کرکے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں کو جانے والے ہزاروں ہندوستانیوں کو ان دنوں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں تازہ واقعہ سعودی عرب میں 10 ہزار ہندوستانیوں کی فاقہ کشی کا ہے جہاں ہزاروں ہندوستانیوں کو کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی

اور یہ لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے سعودی عرب سے ایک ہندوستانی کی جانب سے روانہ کردہ ٹوئیٹر پیام کا جواب دیتے ہوئے 10 ہزار فاقہ کش ہندوستانیوں کو قونصل خانہ ہند جدہ کو ہدایت دیتے ہوئے غذا کی فراہمی کا بندوبست کیا۔ ان ورکرس کے مسائل کی سماعت اور انہیں راحت بہم پہنچانے کے لئے وزارت خارجہ نے ہر ممکنہ کوشش کا وعدہ کیا ہے۔ اس خصوص میں مملکتی وزیر خارجہ وی کے سنگھ عنقریب جدہ کا دورہ کریں گے۔ خلیجی ملکوں میں ہندوستانی ورکرس کے مسائل نئے نہیں ہیں۔ برسوں سے مقامی ایجنٹوں نے تھوڑے سے فائدہ کے لئے ضرورتمندوں اور غریب ہندوستانیوں کا استحصال کیا ہے۔ ایک طرف یہ ورکرس پریشان ہوتے ہیں دوسری طرف خلیجی ممالک میں ان حالات سے نمٹنے میں حکومتوں کی تاخیری اقدامات کے باعث مشکلات و مصائب میں اضافہ ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے بشمول خلیجی ملکوں نے غیر مقیم تارکین وطن خاص کر غیر قانونی طورپر مقیم افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی تھی جس کے باعث کئی ہندوستانیوں کی وطن واپسی عمل میں آئی اور کئی کو دوسرے آجروں سے اقامے حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ متحدہ عرب امارات نے بھی سال 2007 ء میں تقریباً 2,79,000 غیر قانونی ورکرس کو ملک چھوڑ دینے کے لئے 3 ماہ کی عام معافی کی رعایت دی تھی جس سے کئی ورکرس اس عام معافی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے وطن واپس ہوئے تھے۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں میں مقامی آجرین کی زیادتیوں کی شکایات بھی عام ہیں۔ چھوٹے کام کرنے والے ہوں یا اعلی عہدوں پر فائز افراد کو حالیہ برسوں میں ملازمتوں کے تعلق سے فکرمند ہونا پڑا ہے۔ ورکرس اور خادمائوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی خبریں بھی آئے دن ہر ایک ہندوستانی شہری کو مضطرب کرتی ہیں۔ ہندوستانی خادمہ کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات بھی عام ہیں۔ گزشتہ سال سے ایک خادمہ کو اس کے سعودی مالک نے ہاتھ کاٹ دیئے تھے۔

سعودی مالکین کی جانب سے سائوتھ ایشیائی ورکرس کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے متنازعہ کیسس سامنے آتے رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے اگر چیکہ حکومت سعودی عرب نے اپنے سسٹم میں متعدد اصلاحات بھی لائے ہیں۔ سال 2014ء میں حکومت نے تارکین وطن ورکرس کو باخبر رکھنے کے لئے ایک ویب سائٹ بھی شروع کیا تھا تاکہ ورکرس اپنے حقوق سے واقف ہوسکیں۔ اس کے باوجود خرابیاں اور زیادتیاں پائی جارہی ہیں۔ اب جبکہ سعودی عرب میں ہندوستانیوں کی تازہ کیفیت منظر عام پر آچکی ہے اور حکومت ہند نے فاقہ کشی کا شکار 10 ہزار ہندوستانیوں کی کیفیت کا بروقت نوٹ لے کر ہندوستانی قونصل خانہ کو حکم دیا اور فاقہ کشوں کو راحت پہنچائی گئی۔ اب اس طرح کے مسائل روز کا معمول بن رہے ہیں تو حکومت ہند اور سعودی حکام کو ایک موثر رول تیار کرنے کی ضرورت ہوگی مملکتی وزیر خارجہ وی کے سنگھ کے دورہ کے موقع پر ہندوستانیوں کے مسائل اور ان کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے ساتھ ان شکایات کا فوری ازالہ کردینا چاہئے اور مستقبل میں ایسے حالات کا اعادہ نہ ہونے پائے اس کے لئے ایک مضبوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے حکومت کی جانب سے کوششوں کے علاوہ سعودی عرب میں مقیم 30 لاکھ ہندوستانیوں سے ہمدردانہ اپیل کی کہ وہ اپنے ہم وطنوں کی پریشانیوں کو دور کرنے میں آگے آئیں۔ بلاشبہ انسانیت کے ناطے امدادی اقدامات ایک مستحسن کوشش ہوتی ہے۔ حکومت ہند کو بیروزگاری کا شکار ہندوستانیوں کو وطن واپس لانے کے ساتھ ان کی بازآبادکاری کے لئے بھی موثر اقدامات کرنے پر غور کرنا ہوگا۔