ہندوستانی معاشی ترقی کی شرح

ہندوستان کی معاشی ترقی سے متعلق کی گئی اب تک پیش قیاسیوں سے زیادہ شرح ترقی کا نیا ریکارڈ پیش کرنے والے اداروں نے ملک کو سال 2015 ء اور 2016 ء میں دیگر ملکوں سے آگے بتایا ہے۔ معاشی سطح پر اس کی شرح 7.6 فیصد بتائی گئی ہے۔ مالیاتی سال کے سہ ماہی جائزہ کے تحت ہندوستان کی اندرون ملک مجموعی پیداوار 7.9 (GDP) فیصد ہے۔ اس طرح سالانہ فی کس آمدنی میں 6.2 فیصد یعنی 77,435 کا اضافہ ہوا ہے۔ سنٹرل اسٹاٹسٹکس آفس نے قومی آمدنی کا ڈاٹا جاری کیا ہے۔ اس کے مطابق سال 2015-16 ء میں یہ آمدنی 113.50 لاکھ کروڑ بتائی گئی جبکہ اس سال سے قبل یہ آمدنی 105.52 لاکھ کروڑ تھی۔ اس سے 7.6 فیصد شرح پیداوار درج کی گئی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے زرمبادلہ شرح فی ڈالر 67.20 روپئے کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ملک کی ٹھوس آمدنی کی قدر 1.69 Trillion ٹریلین ڈالر ہے۔ مرکز کی بی جے پی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک کی ترقی کی رفتار کو اتنا خوش کن بتانے کے پیچھے کیا مقصد کارفرما ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال افراط زر کی شرح اور عوام کی قوت خرید کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے وہ عوام کی روز مرہ زندگی کو ابتر بنانے کا موجب بن رہی ہے۔ مگر سطحی طور پر ملک کی معاشی ترقی کی رفتار کو صرف کاغذی ہندسوں کے ذریعہ آگے لے جانے کی کوشش ہورہی ہے تو یہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔

حکومت نے یکم جون سے عوام پر سیس (CESS) کی شکل میں زائد ٹیکس کا بوجھ عائد کردیا ہے۔ عوام کے ٹیلی فون بل، ریسٹورنٹس میں کھانے کے بل، ایرلائنس ٹکٹس مہنگے ہوں گے۔ کرشی کلیان سیس (0.5) فیصد کو تمام ٹیکس والی خدمات پر عائد کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت کی چالاکیوں سے عوام پر پڑنے والے بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ مہنگائی میں اضافہ کرے گا۔ آنے والے مالیاتی سال میں عوام پر زائد از 20,600 کروڑ روپئے کا بوجھ ہوگا۔ جو بل یکم جون سے جاری کئے جائیں گے، ان پر 0.5 فیصد کرشی کلیان سیس عائد ہوگا۔ اس کے علاوہ ویاٹ اور سرویس چارجس بھی ہوں گے۔ صارفین سے ہی اس طرح کے ٹیکس کے ذریعہ مالیہ متحرک کرنے والی مودی حکومت آنے والے 3 برسوں کے دوران عوام کو مختلف عنوانات سے ٹیکس کے جال میں پھانسے گی۔ سونے چاندی کے بیوپاریوں کے احتجاج کے بعد حکومت نے 8 لاکھ روپئے کی لاگت تک سونے کے زیورات کو رقمی خریدی پر ایک فیصد ٹیکس کے نفاذ کے فیصلہ کو واپس لے لیا ہے۔ مرکز نے سوچھ بھارت سیس بھی وصول کرنا شروع کیا ہے۔ نریندر مودی حکومت نے دو سال کا جشن منایا تو اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کی تمام خرابیوں کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ مگر اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس نے مودی حکومت کی کارکردگی کا درست تجزیہ کرکے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف دو سال میں عوام کی اکثریت بھی حکومت کی عدم کارکردگی اور خرابیوں سے واقف نہیں ہوئی کیوں کہ حکومت کی سطح پر ہونے والی خرابیوں کے اثرات عوام کو جب دکھائی دیں گے اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں کالا بازاری بڑھ رہی ہے اور ذخیرہ اندوزوں کو زبردست فائدہ مل رہا ہے۔ حکومت کے معاشی اداروں نے سال 2015-16 ء کے لئے جو شرح آمدنی 7.6 فیصد بتائی ہے اس جی ڈی پی حساب کے نئے نظام کے مطابق سال 2014-15 ء میں ملک کی معیشت 7.3 فیصد تھی۔ اس طرح کے اعداد و شمار کی سچائی پر شکوک و شبہات پیدا ہونا یقینی ہے۔ نریندر مودی حکومت ایک طرف روزگار فراہم کرنے کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے 1.34 لاکھ افراد کو روزگار دینے کا دعویٰ کررہی ہے جبکہ ملک کی بڑی کمپنیوں نے 20,000 ملازمین کو برطرف کردیا ہے۔ آئی ٹی شعبہ میں بھی بڑے کارپوریٹ اداروں نے اس سال ملازمتوں کی فراہمی کی تعداد کو گھٹادیا ہے۔ اگر گزشتہ دو برس کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکاریوں اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد اس میں کمی کا کوئی رجحان دکھائی نہیں دیتا۔ متوسط طبقے کو پہلے سے زیادہ اخراجات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والے ہندوستانی معاشی ماہرین ملک کی معاشی ترقی کو بہتری کی حالت میں دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان کی معیشت پر نظر رکھنے والے عالمی اداروں نے جیسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF معاشی پیداوار کی شرح 7.5 فیصد ہونے کی توقع ظاہر کی تھی اور عالمی بینک نے اس مدت یعنی 2015-16 ء کے دوران معاشی ترقی کی شرح 7.3 فیصد کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ اس طرح کے اعداد و شمار کا کھیل مہنگائی پر قابو نہیں پاسکے گا۔