زندگی کی مری کہانی بھی
اِک خرافات ہوگئی یارو
ہندوستانی مسلمانوں کی راہ …
ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور کیفیت پر اپنے جذبات کا مناسب اور موزوں ترین اظہارِ خیال کرتے ہوئے طلباء لیڈر کنہیا کمار نے روز نامہ ’سیاست‘ کے توسیعی لکچر میں جن حقائق کی جانب توجہ دلائی ہے وہ غور طلب ہیں۔ ملک کے ماضی کے حالات اور اس وقت رونما ہونے والی کیفیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ حکمرانوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو خوف و ہراس کے ماحول میں ڈھکیلا یعنی ہندوستانی شہری ہونے ،حقوق کے حصول کی فکر کا موقع ہی نہیں دیا بلکہ انہیں ہمیشہ مدافعتی موقف اختیار کرتے رہنے کیلئے چھوڑ دیا۔اپنے بچاؤ کی ہی فکر کرنے والا ہندوستانی مسلمان آج بھی حکمرانوں کے رحم و کرم کی آس میں بیٹھا ہے۔ ان کے نام نہاد قائدین نے بھی انہیں ایک لکیر کے فقیر بنائے رکھنے تک ہی کام کیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی فکر پیدا ہی نہیں کی گئی اور جن مسلمانوں کے پاس فکر صحیح پائی جاتی ہے انہیں مضبوط بنانے کی اجتماعی کوشش نہیں کی گئی، نتیجہ میں آج مسلمانوں کے اندر اجتماعیت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس انتشار کا شکار مسلم معاشرہ اپنی بقاء کی جدوجہد میں بھی پیچھے ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ بھی ہیں جو آگے آئیں تو بلا شبہ مسلم معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتے ہیں لیکن ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔اپنی آئندہ نسلوں کی بہتری کے خواب پورا کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ موجودہ نسل سخت محنت کرے ، آپس میں یکجہتی اور اتحاد کے ساتھ اپنی زندگیوں کو متوازن طریقہ سے گذارنے کی کوشش کریں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی خرابی فضول خرچی ہوگئی ہے۔ برسوں سے فضول خرچی کے خلاف مہم کا کوئی اثر دیکھا نہیں گیا۔ سارے ملک میں مسلمانوں کی زندگی اور معاشی کیفیت کا جائزہ لیا تو لیا جاتا ہے مگر اس کے لئے ٹھوس کوششیں نہیں ہوتیں کیونکہ مذہبی اور سماجی سطح پر مسلمانوں کا ذہنی مزاج بھی مختلف خانوں میں بانٹ کر رکھا گیا ہے۔ بڑی خرابی یہ ہے کہ جن مسلمانوں کے پاس زندگی گذارنے کی تمام سہولیات میسر ہیں انہوں نے فضول خرچی کو اپنی شان بنالی ہے۔ کفایت شعاری کا مزاج کم ہوتا گیا ہے، اگر ہر مسلمان کفایت شعاری کے ذریعہ خود کا اور اپنے طبقہ کی بھلائی کا منصوبہ بنائے تو وہ ایک وقت آنے پر معاشرہ کا طاقتور حصہ بن سکتا ہے اگر مسلمان اپنے طور پر طاقتور ہوجائیں گے تو اس ملک کی فضاء کو اپنے بس میں کرنے کی خوبیوں کے بھی حامل ہوں گے لیکن افسوسناک سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کو فضول خرچی کے ذریعہ گنوا دینے کی عادت پیدا کرلی ہے۔ اگر مسلمانوں کی اکثریت نے کفایت شعاری کو ترجیح دینا شروع کیا تو یقیناً وہ آنے والے برسوں میں خود کو ایک مضبوط معاشی طاقت کا حامل شخص محسوس کرے گا۔ ایک مضبوط معاشی طاقت کا حامل شخص اپنے معاشرہ کی بھلائی کی فکر کرتا ہے تو وہ اپنے جیسے دیگر لوگوں کو بھی اس صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی مدد کرتا ہے تو دیکھتے ہیے دیکھتے مسلمانوں کی ایک بڑی مضبوط معاشی قوت اُبھرے گی۔ کفایت شعاری ہی ایک ایسا مضبوط ہتھیار ہے جس کی مدد سے نہ صرف مسلم فرد واحد خود کو طاقتور بنانے کا اہل ہوگا بلکہ وہ طبقہ کے دیگر لوگوں کے لئے مثال بن کر اُبھرے گا۔ مگر ہم میں سے ایسے کتنے ہیں جو فضول خرچی سے اجتناب کی فکر رکھتے ہیں اور اجتماعی قوت بننے کی راہ کو کشادہ کرنے کی سوچ میں مصروف رہتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ پورے کرنے کی ہی ہمت دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اب تک یہی ہوتا آرہا ہے کہ سیاسی سطح پر مسلمانوں کو صرف کھوکھلے وعدوں اور جھوٹے دعوؤں سے مطمئن کیا جاتا رہا ہے۔ مسلمانوں کے اندر اختلافات کی گنجائش کو پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور مفاد پرست اس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر تبدیلی کا کام شروع کرنے کی منظم تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کی فرقہ پرست تنظیموں نے آزادی کے بعد سے آج تک اپنی تحریک کو مضبوط بنانے کے مشن پر کام کیا ہے اور آج وہ ملک کے مقتدر اعلیٰ تک پہونچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہ سب کچھ ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھ اور ناک کے سیدھ میں ہوتار ہا ہے لیکن مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی قیادت نے خود کو اور اپنے طبقہ کے افراد کو تاریکی میں رکھ کر سیاسی معاشی اور سماجی بائی پاس سرجری کی کیفیت کو لاکر چھوڑدیا ہے۔ مسلمانوں کو مدافعتی موقف سے باہر نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ فضول خرچی سے اجتناب کریں اور خود کو مالی وعلمی سطح پر مضبوط بنانے کی فکر کریں۔