رات کے گذرتے ہی اور ایک رات آئی
آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے
ہندوستانی سیاست کا سیاہ دور
ہندوستان کی سیاست میں ان دنوں جن لیڈروں کی بہتات ہورہی ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے مصداق ٹکے ٹکے کے لوگ بلٹ پروف گاڑیوں اور بڑے بڑے سیاسی عہدوں پر دندناتے پھرتے ہوئے فائز ہورہے ہیں اور اعلیٰ و ارفع دماغ لوگ جیسے کوما میں پڑے ہیں۔ بی جے پی کے وزرات عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کے تعلق سے یہ بات عام ہورہی ہے کہ ایک چائے بیچنے والا آگے چل کر ملک کا وزیراعظم ہوگا ۔ ننگے پاؤں چائے کی کیتلی لے کر سڑک پر پھرتے ہوئے چائے بیچنے والے کو ملک کے عوام اعلیٰ عہدہ دینے کی غلطی کرنے جارہے ہیں تو یہی فرد کل ان کیلئے مسائل پیدا کرے گا ۔ قومی پارٹی کی طویل تاریخ رکھنے والی کانگریس کو جگہ جگہ نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والے نریندر مودی کے سوالات کا جواب تلاش کرنے میں بھی یہ قدیم پارٹی قاصر نظر آرہی ہے ۔ کانگریس قیادت کی صلاحیتوں حکمت عملیوں اور مستقبل کی تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں ۔
نائب صدر کانگریس راہول گاندھی کی پے در پے ناکام انتخابی مہم اور حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بھی بی جے پی کو سبقت ملنے کے سروے کے بعد یہ یقین ہونے لگا ہے کہ قومی موقف کی حامل کانگریس علاقائی حد تک سکڑ کر رہ جائے گی ۔ یو پی میں جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے سماج وادی پارٹی کی حکومت کو زبرست پشیماں کردیا ہے ۔ بی جے پی کے زرخرید الکٹرانک میڈیا نے بروقت سروے کرواکر مودی کی لہر کا اشارہ بھی دیدیا ۔ اگر آدمی چرب زبان ہو اور زہر افشانی کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ مذہبی عقیدہ میں سرشار سادہ انسانوں کو بھڑکانے میں ضرور کامیاب ہوجائے گا ۔ ہندوستان کی پیشانی پر 6 ڈسمبر 1992ء کے روز بابری مسجد کی شہادت کا سیاہ داغ لگانے والوں نے ہی گجرات میں 2002 میں فسادات برپا کروائے ۔ مسلم کش فسادات اور ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہاتھ کے ساتھ جب چیف منسٹر گجرات نریندر مودی وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے روپ میں سیکولر ہندوستان کے عوام سے ووٹ حاصل کریں گے تو یہ تاریخ کا سب سے سیاہ باب ہوگا ۔ ہندوستان کی پیشانی پر جو سیاہ داغ لگ چکے ہیں ان کی سیاہی میں مزید گہرائی پیدا ہوجائے گی ۔ بابری مسجد کی شہادت دنیا کی تاریخ کا اہم حصہ بن چکی ہے ۔گجرات فسادات بھی اس کا حصہ ہوگئے ہیں۔ عالمی سطح پر خاص طورپر امریکہ نے مودی کے ان ہی گناہوں کی وجہ سے ویزا دینے سے انکار کردیا ہے ۔ اب یہی خوفناک سیاہ سائے ہندوستانی سیاست پر چھائے رہیں گے ۔ ان کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کسی بھی بڑی جماعت نے ہمت نہیں دکھائی ہے ۔ کسی خاطی کے جرم کی سزا بروقت نہ ملنے کانتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ خاطی اب قانون سے کھلواڑ کرنے کے اختیارات حاصل کرلے گا ۔ آج نریندر مودی قومی سیاست کو آنکھیں دکھارہے ہیں ،
حکمراں پارٹی کانگریس کو رسوا کررہے ہیں ۔ ان کی بیان بازی کا موثر جواب دینے کیلئے کانگریس ترجمان کے پاس کوئی زبان نظر نہیں آتی ۔ زبانی جمع خرچ نہ کرلیا جائے تو کم از کم انتخابی حکمت عملی کو قطیعت دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ یہ حکومت کی ہی کمزوری تھی کہ گجرات فسادات کے جرم میں خاطی چیف منسٹر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام رہی ۔ گزشتہ 10 سال سے مرکز پر اقتدار کے مزے لیتے ہوئے فرقہ پرستوں کی پرورش کرنے والی کانگریس کس منہ سے سیکولر رائے دہندوں کو یہ یقین دلائے گی کہ وہ آئندہ ہندوستان کو سیکولر ملک کے طورپر مضبوط بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ اگر کانگریس نے بروقت قانون کا سہارا لے کر خاطیوں خاص کر گجرات کے مسلمانوں کے گناہگاروں کو جیل کی سلاخوں میں ڈالتی تو آج نریندر مودی کو اپنی طاقت اور مقبولیت پر زعم کرنے کا موقع نہیں ملتا ۔ ہندوستان کے قانون اور سیکولرازم کی دھجیاں اڑانے کی ہمت نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ حکومت کی ہی کمزوری تھی کہ اس وقت نریندر مودی کو شیر بنادیا گیا جس کا خمیازہ آگے چل کرسیکولر ملک کے عوام کو بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ نریندر مودی کو سیاسی طورپر طاقتور ہونے کا موقع کس نے دیا ۔
گجرات فسادات پر خوش ہوکر اپنے ساتھیوں کو شاباشی دے کر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی ہمت ان میں کیسے آئی یہ سب قانون کی کمزوری یا قانون کو بالائے طاق رکھنے کا نتیجہ ہے ۔ گجرات فسادات کے خاطیوں کو ملک کی عدالت میں سزا دینے کے جو طریقے اختیار کئے گئے وہ افسوسناک تھے ۔ اب یہ لوگ لوک سبھا انتخابات میں اپنی فرقہ پرست سیاست کا ایسا ننگا ناچ کریں گے جو ہندوستان کی یکجہتی اور اتحاد کے لئے خطرہ پیدا کرسکتا ہے ۔ مرکز میں کانگریس کو اپنے اسکامس سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ کئی بدعنوانیوں میں ملوث یہ پارٹی ملک کے عوام کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوئی ہے تو پھر کانگریس کو ووٹ دینے والوں کو زبردست صدمہ ہوگا ۔