کرتا میں دردمند طبیبوں سے کیا رجوع
جس نے دیا تھا درد بڑا وہ حکیم تھا
ہندوستانی سماج اور سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے ایک ہفتہ کے دوران کئی اہم اور متنازعہ کیسوں پر کچھ ایسے فیصلے دیئے ہیں کہ اس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ ایودھیا، بابری مسجد کیس، ناجائز تعلقات، سماجی جہدکاروں کی گرفتاری یا سابرملا مندر میں خواتین کے داخلہ اور سب سے زیادہ توجہ طلب کیس آدھار کارڈ پر سپریم کورٹ کے ججس کی رائے اور فیصلے نے ہندوستانی عدلیہ کی سربلندی اور اس کی افادیت نے عوام کی نظروں میں کیا مقام پیدا کیا ہے یہ آنے والے دنوں میں ظاہر ہوگا۔ اس ملک کی عوامی زندگی میں سب سے نازک کیس ایودھیا بابری مسجد تنازعہ کا ہے ۔ اس کیس پر اگرچیکہ سیاسی سائے منڈلارہے ہیں۔ یہ صرف ایک کیس ہی نہیں بلکہ ہندوستانی عوام کے مذہب و عقیدے سے مربوط مسئلہ ہے۔ مذہبی جذبات کا استحصال کرنے سے گریز کرتے ہوئے اگر معاملہ کی یکسوئی کی جانب قدم اُٹھایا جاتا ہے تو اس کو کون قبول کرے گا اور کون نہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ سپریم کورٹ کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ قانون و عدلیہ کے لئے نظیر بن جاتے ہیں۔ تحت کی عدالتوں میں کوئی بھی اس طرح کے مسائل میں اُلجھے کیس زیرسماعت آتے ہیں تو وکلاء اور ججس کے سامنے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظیر ہوتی ہے۔ ان دنوں سپریم کورٹ کے مقدمات اور ان پر ججس کی رائے و فیصلے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ کل تک سپریم کورٹ کے ججس نے چیف جسٹس کی کارکردگی کے خلاف کھلے عام اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کئی سوال اُٹھائے تھے۔ عدلیہ کے اندر غیر معمولی طور پر بغاوت کا ماحول پیدا ہوا تھا۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے بھی عدالت عالیہ میں ججس کی نمائندگی کے بارے میں سوال اُٹھائے تھے۔ ان تمام تنقیدوں اور تعریفوں کے درمیان سپریم کورٹ نے گزشتہ ایک ہفتہ میں جتنے بھی فیصلے دیئے ہیں اس کے ہندوستانی معاشرہ پر مثبت و منفی نتائج مرتب ہوں گے۔ ہندوستان کا مشترکہ قانونی نظام اور فیصلے کی قوت ایک نظیر قائم کرنے کے لئے بہت نازک صورتحال سے دوچار ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے تقریباً 70 فیصد فیصلوں کو تحت کی عدالتوں میں ایک نظیر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ آخر سپریم کورٹ کے دیگر فیصلے کا تحت کی عدالتوں میں کتنی مرتبہ حوالہ دیا گیا ہے، مقدمات کی یکسوئی، ضمانت کی اجرائی اور ایف آئی آر کے رجسٹریشن جیسے مسائل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ ہائیکورٹ ہو یا تحت کی عدالت میں سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ نظیر کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ اس لئے بھی سپریم کورٹ کو دستور کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ ججس نے فیصلوں میں دستور کا کن کن جگہوں پر حوالہ دیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججس کی موجودہ ٹیم کے حالیہ فیصلوں کو آئندہ کے لئے نظیر بنایا جائے تو اس کے ہندوستانی سماج پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے سال کے اوائل میں جسٹس لویا کیس سے جس طرح نمٹا تھا اس پر سپریم کورٹ کے ہی چار ججس نے چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف بغاوت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی تو پھر ہندوستانی جمہوریت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کے خلاف چار ججس جن میں جسٹس جے چلمیشور بھی شامل تھے کہا تھا کہ بعض اوقات سپریم کورٹ کا نظم و نسق اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی سے کام لیتا ہے اور گزشتہ چند ماہ کے دوران یہی کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کو ایک ’’آرڈر‘‘ میں نہ لایا جائے جمہوریت کے درست معنی واضح نہیں ہوں گے۔ جن چار ججس نے مخالفانہ موقف اختیار کیا تھا ان میں جسٹس چلمیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، ایم بی لوکر اور کورین جوزف بھی شامل تھے۔ اب انہی ججس کے سامنے سپریم کورٹ نے جو فیصلے سنائے ہیں اس کے بارے میں مختلف رائے سامنے آرہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ عدالت عالیہ نے ہندوستان کی سماجی حقیقت کو ہی نظرانداز کردیا ہے۔ ناجائز تعلقات کو جرم قرار نہیں دیا گیا۔ سابرملا مندر میں خواتین کو داخلے کی اجازت دی گئی، آیا ایسے فیصلے اظہار خیال کی آزادی، مساوات اور عزت و وقار کے نظریہ پر ضرب سمجھے جائیں گے؟
کشمیر کی موجودہ صورتحال
کشمیر میں گورنر راج کے دوران بھی کشمیری عوام کی روز مرہ زندگی میں ہر صبح کا آغاز بندوق کی گولیوں اور بم دھماکوں سے ہورہا ہے تو یہ وادی کے اندر امن کی اُمیدوں کو ختم کردینے والی تلخ حقیقت ہے۔ کشمیر میں آنے والے دنوں میں پنچایت اور شہری بلدیات کے انتخابات ہونے والے ہیں لیکن مسلح تشدد، پابندیوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ سری نگر کے نور باغ علاقہ میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد پھر سے بند، احتجاجی مظاہروں اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیموں نے وادی میں جمعہ کے دن احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی تھی۔ پوری وادی میں بدامنی کی کیفیت نے اس ریاست کے مقرر کردہ نئے گورنر ستیہ پال ملک کی کارکردگی کی جانب عوام کی نگاہیں مرکوز کردی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ستیہ پال ملک نے مسئلہ کشمیر کو ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے تشدد کے واقعات کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا ہے۔ وادیٔ کشمیر کو 1989 ء تک ہندوستان کا ایک فیشن کا دارالحکومت سمجھا جاتا تھا بلکہ سرینگر تو ہندوستانی عوام اور بالی ووڈ کے ارکان کا پسندیدہ مقام ہوا کرتا تھا لیکن اب یہاں کی رونق پر خون کی چادر چڑھا دی گئی ہے۔ مرکزی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی اب تک کشمیر کے مسئلہ کی یکسوئی کے لئے کوئی ٹھوس موقف واضح نہیں کیا بلکہ پاکستان کی نئی عمران خان حکومت کی بات چیت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں سشما سوراج اور شاہ محمود قریشی کی ملاقات کو ناممکن بنادیا گیا۔ سشما سوراج سلامتی کونسل کے اجلاس کے درمیان سے ہی ہندوستان واپس ہوئی ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے رونما ہونے والے حالیہ واقعات افسوسناک ہیں جو آنے والے دنوں میں کئی چیالنجس پیدا کرسکتے ہیں۔