کس جرم میں چھینی گئی ہم سے ہماری ہنسی
ہم نے تو کسی کا دِل دُکھایا بھی نہیں تھا
ہندوستانی سفارتکار پر تازہ مقدمہ
امریکہ میں سابق ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبر گاڑے کے خلاف تازہ ترین مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔ حالانکہ امریکی عدالت میں استغاثہ کی کارروائی کو پہلے مسترد کرتے ہوئے یہ واضح کردیا گیا تھا کہ جس وقت کھوبر گاڑے کے خلاف ویزا قواعد کی خلاف ورزی کے الزام میں کارروائی کی گئی اور انہیں گرفتار کیا گیا اس وقت انہیں سفارتی استثنی حاصل تھا۔ اس تجزیہ کے ساتھ کھوبر گاڑے کے خلاف مقدمہ کو خارج کردیا گیا تھا لیکن اسی وقت استغاثہ اور خاص طور پر امریکی اٹارنی پریت بہرارا نے واضح کردیا تھا کہ کھوبر گاڑے کے خلاف تازہ مقدمہ دائر کیا جائیگا۔ جج نے بھی استغاثہ کو ایسا مقدمہ دائر کرنے سے روکا نہیں تھا لیکن یہ چونکہ سفارتی معاملہ ہے اس لئے اس کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اس کارروائی کو عدالت کی رولنگ کے ساتھ ختم کردیا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی اٹارنی اپنی ہٹ دھرمی کے ذریعہ اس مقدمہ کو مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ کے مابین تعلقات حالیہ برسوں میں کافی بہتر ہوئے ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے سے قریب آئے ہیں۔ کئی عالمی امور پر دونوں ملکوں کے مابین شراکت داری ہے اور ہندوستان کے ستاھ امریکہ نے سیویلین نیوکلئیر معاہدہ بھی کیا ہوا ہے۔
دفاعی شعبہ میں دونوں ملکوں کے مابین قریبی تعاون جاری ہے ایسے میں سفارتکار کے مسئلہ کو غیر ضروری طوالت دیتے ہوئے اور انہیں نشانہ بناتے ہوئے ان تعلقات کو مزید بگاڑنے سے گریز کرنے کی ضرورت تھی۔ امریکی وکلائے استغاثہ اس پہلو کو نظر میں رکھے بغیر ایک طئے شدہ حکمت عملی کے تحت کام کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو کشیدہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ جس وقت کھوبر گاڑے امریکہ میں برسر کار تھیں اس وقت انہیں سرعام گرفتار کرتے ہوئے ان کی جامہ تلاشی بھی لی گئی تھی۔ اس وقت بھی ہندوستان نے شدید اعتراض کیا تھا اور بالآحر کھوبر گاڑے ہندوستان واپس آگئی تھیں۔ عدالت میں مقدمہ چلتا رہا اور کھوبر گاڑے کو عدالت سے برات حاصل ہوئی تھی جو استغاثہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہندوستان نے کھوبر گاڑے کے خلاف مقدمہ کو از سر نو پیش کرنے کے فیصلے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو متاثر کرنے کا موجب ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف کی یہ کارروائی غیر ضروری ہے۔ ہندوستان نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہند۔ امریکہ حکمت عملی شراکت داری کو مستحکم بنانے کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ متاثر ہوسکتی ہیں۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں استغاثہ کی کارروائی کسی سچائی یا ٹھوس ثبوت کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ کسی کو نشانہ بنانے کا عمل ہے جس کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ جس وقت کھوبر گاڑے کے خلاف کارروائی ہوئی تھی اس وقت دونوں ملکوں کے مابین کچھ لفظی تکرار ہوئی تھی اور ہندوستان نے واضح کردیا تھا کہ سفارتکار کو سفارتی استثنی حاصل ہے اور اسے سر عام گرفتار کرتے ہوئے جس طرح جامہ تلاشی لی گئی ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔ تمام حقائق کے باوجود امریکی اٹارنی کے دفتر کا الزام ہے کہ سفارتکار دیویانی کھوبر گاڑے نے کئی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکی حکام کو غلط معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنی ملازمہ کیلئے ویزا حاصل کیا تھا
اور ان کا تقرر کھوبر گاڑے نے ہندوستانی سفارتکار کی حیثیت میں نہیں کیا تھا اور ملازمہ کو امریکی قوانین کے مطابق اجرت بھی ادا نہیں کی جا رہی تھیں۔ یہ سارے ایسے جزوی الزامات ہیں جنہیں عدالت نے قبول نہیں کیا تھا۔ ہندوستان کے وزیر خارجہ مسٹر سلمان خورشید نے آج ایک بار پھر ہندوستان کے موقف کو واضح کردیا اور کہا کہ امریکہ میں ہونے والی یہ کارروائیاں برہمی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا سلسلہ روکا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہئے کہ اس مسئلہ کا کوئی سیاسی انداز میں حل دریافت کرے تاکہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات متاثر ہونے نہ پائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سفارتکار کے خلاف کارروائی کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور اس طرح کی مزید کارروائیوں سے گریز دونوں ملکوں کے تعلقات کے مفاد میں ہوگا۔ یقینی طور پر ہندوستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کو کشیدگی اور بگڑنے سے بچانے کیلئے اس طرح کی کارروائیاں روکی جانی چاہئیں کیونکہ ان کے نتیجہ میں گذشتہ طویل عرصہ کی کوششوں سے جو تعلقات مستحکم ہوئے ہیں ان کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔ ایسا کرنا دونوں ہی ملکوں کے مفاد میں ہوگا اور امریکی نظم و نسق کو ان حالات اور تمام حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی مثبت فیصلہ کرنا چاہئے۔