آج ہیں اخلاق اور اقدار سب بالائے طاق
جانے یہ جمہوریت ہے یا کہ اس کا اک مذاق
ہندوستانی جمہوریت اور سیاستداں
ہندوستانی پارلیمنٹ کا جمہوری تشخص پامال ہوچکا ہے۔ بدتمیز سیاستدانوں نے اپنے سیاسی اختیارات کا بیجا استعمال کرکے دانستہ یا نادانستہ پارلیمانی اصولوں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ لوک سبھا میں تلنگانہ بل کی پیشکشی کو روکنے کیلئے سیما ۔ آندھرا کے ارکان نے جس شدت سے ہنگامہ برپا کیا اس کی ہر گوشے سے مذمت کی جارہی ہے اور کانگریس قائدین کی ناپسندیدہ حرکتوں کے لئے پارٹی ہائی کمان کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں یہ اصول تسلیم کیا جاتا ہیکہ کسی بھی حکومت کو طئے شدہ عرصے میں اچھی کارکردگی دکھانے کیلئے پرامن ماحول ملنا چاہئے۔ اپوزیشن ہر جمہوری ملک میں ہوتی ہے۔ اس کا کام حکومت کے غلط اقدامات کی گرفت کرنا ہوتا ہے مگر ہندوستانی پارلیمنٹ میں موجودہ حالات خود حکمراں پارٹی کے ارکان کے پیدا کردہ ہیں۔ تلنگانہ بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سیما ۔ آندھرا قائدین نے چاقو نکال لیا اور پیپر اسپرے کا استعمال کیا تو یہ حرکت پارلیمانی تقدس کی یکسر خلاف ورزی کہی جانے لگی۔ تلنگانہ کے قیام کو ناکام بنانے کیلئے سیما آندھرا کا ڈنڈا، چاقو اور پیپر اسپرے بردار گروپ انتہائی قابل مذمت حرکتوں پر اترآیا ہے اس کا نوٹ لینے کی حکمراں پارٹی کو توفیق ہوگی یا نہیں یہ آئندہ پتہ چلے گا مگر پارلیمنٹ کے اس واقعہ کے بعد کانگریس جیسی تاریخی قومی پارٹی کے عزت نفس پر شدید ضرب پہنچی ہوگی۔ پوری قوم حکمراں پارٹی اور اس کے قائدین کی ملامت کررہی ہے۔ تلنگانہ کے مسئلہ پر احتجاج کی ایک اور بدنما شکل یہ ابھری ہے کہ سیما آندھرا قائدین نے صدر کانگریس سونیا گاندھی کے قتل کی بھی دھمکی دی ہے۔
تلنگانہ کے قیام کے وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر کانگریس زیرقیادت یو پی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پیش کردیا ہے تو بی جے پی اور دیگر پارٹیوں نے بل کو پیش کرنے کے طریقہ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اب تلنگانہ کا مسئلہ پارلیمنٹ میں اٹکا رہے گا۔ پارلیمنٹ میں جب معزز ارکان کی کمی ہو تو امن و سکون سے کارروائی کی توقع کرنا فضول ہے۔ قحط الرجال تو سنا گیا ہے یعنی اچھے لوگوں کی کمی مگر پارلیمنٹ کے اندر سیاستدانوں نے اصولوں کا قحط ہونے کا بھی ثبوت دیدیا ہے۔ ہر اصول اور کام کرنے کا صحیح طریقہ صرف کتابوں اور پارلیمنٹ کی دستاویزات میں ہی مفقود ہوگا۔ دستور سازوں نے یہ ہرگز اندازہ نہیں کیا ہوگا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ آگے چل کر دنگل میں تبدیل ہوگی۔ اس طرح کے واقعات سے حیرانی ہی نہیں پریشانی اور افسوس بھی ہونے لگتا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت دیگر ملکوں کی طرح بوسیدہ نہیں ہے۔ یہاں کا ہر جمہوری کام پختہ کاری سے بھرپور ہوتا ہے مگر لیڈروں نے اپنے مفادات کی خاطر غیرجمہوری اصول اختیار کرکے بحرانوں کے دلدل کو مزید گہرا کردیا ہے۔ تلنگانہ مسئلہ کو کانگریس ہائی کمان نے مناسب طریقہ سے نہیں نمٹا۔ یہ مسئلہ کسی کے لئے بھی نیا نہیں تھا۔ کئی برسوں کی جدوجہد اور اجارہ داری سے آزادی کی تحریک کے بعد پارلیمنٹ تک پہنچایا گیا تھاکہ اس پر خاص احتیاط اور دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ جب کبھی عوام کے حقیقی مطالبہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اسی طرح کے واقعات رونما ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ کانگریس ہائی کمان کو اس وقت اپنے ہی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے پیدا کردہ بے شمار بحرانوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہیکہ پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کی منظوری کیلئے دیگر پارٹیوں کی تائید حاصل کرے۔ پارلیمنٹ میں تمام سیاسی آنکھیں بڑی مصیبت میں گرفتار نظر آتی ہیں۔ یوں تو وہ آنکھیں ایک ہی منظر دیکھتی ہیں لیکن عوام کی آنکھیں دو جدا جدا منظر دیکھ رہی ہیں اور وہ یہ منظر بھی دیکھ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی اصولوں کو کس طرح پیروں تلے روندا جارہا ہے۔ کانگریس کے ارکان لگڑا پاٹی راج گوپال یا تلگودیشم ایم پی وینو گوپال ریڈی نے ایوان میں جو کچھ کیا ہے اس کے منفی نتائج ریاستی و قومی سیاست پر مرتب ہوں گے۔
ملک کیلئے شرمسار کرنے والی حرکتوں کے بعد کسی بھی سیکوریٹی نظام کے کھوکھلے ہونے کا سنگین مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو کیفیت ہے یہ پورے ملک کی عکاسی کرتی ہے۔ ملک کے ہر کونے کونے میں اسی طرح کی غنڈہ گردی اور طاقت کا زوال چل رہا ہے۔ مستقبل کے پارلیمنٹرینس کی تصویر کیسی ہوگی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رائے دہندوں کو حاصل ہے مگر افسوس اس بات کا ہیکہ ملک کے رائے دہندے کھلی آنکھ سے واقعات کو دیکھنے کے بعد بھی ووٹ ڈالتے وقت اچھے لیڈر اور برے نیتا کی تمیز نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہیکہ ملک کے حالات دن بہ دن ابتر سے ابتر ہوتے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی میں خلل پیدا ہونے سے روکنے کیلئے وزیر پارلیمانی امور اور اسپیکر اپنی ذمہ داری کو وقت پر پورا کرنے میں ناکام ہوں تو بعد میں رونما ہونے والے حالات کیلئے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ارکان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے طور طریقہ کیا ہونے چاہئے۔ اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ایوان میں احتجاج کو ایک مشن بنا لینے کی عادت نے قوم کو یہ برا دن بھی دکھادیا ہے۔ دنیا کی تمام نظریں دیکھ چکی ہیں کہ اعلیٰ دستوری قائدین نے چاقوؤں کے ساتھ ہندوستانی جمہوریت کو نچایا ہے بلکہ ہتھیاروں کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہونے والا رکن کیا دہشت گرد نہیں کہلاتا۔؟