اونچی اونچی منزلوں میں بیٹھ کر
پھوس کے جلتے مکاں لکھتے رہے
ہندوستانی بحریہ اور حادثات
ہندوستانی بحریہ کو حالیہ برسوں میں پے در پے نقصانات و حادثات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ تازہ واقعہ گزشتہ اتوار کو ممبئی کے ساحل پر اُس وقت پیش آیا جب آئی این این سندھو رتنا نامی آبدوز نے سمندر میں تجرباتی مشق شروع کی تھی۔ اچانک آگ لگنے سے بحریہ کے دو ملاح ہلاک اور دیگر 7 بے ہوش ہوگئے۔ اس واقعہ بلکہ بحریہ کے آبدوز کشتیوں میں ہونے والے مسلسل حادثات پر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ڈی کے جوشی نے استعفیٰ دے دیا۔ اب یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ آیا اڈمرل کے استعفیٰ سے بحریہ کے آبدوز کشتیوں میں ہونے والے نقصانات کو روکا جاسکے گا کیونکہ بحری افواج کو درپیش مسائل کی یکسوئی کے لئے برسوں سے زور دیا جاتا رہا ہے۔ مگر حکومت نے بحریہ کو عصری تقاضوں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے پر سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ گزشتہ سال ممبئی میں ایک آبدوز کشتی میں دو دھماکے ہوئے تھے جس میں آگ لگ گئی اور آبدوز غرقاب ہوگیا، 18 ملاح ہلاک ہوگئے تھے۔ اس بڑے حادثہ کے بعد بھی حکام اور وزارت دفاع کو ہوش نہیں آیا اور بحری بیڑہ کو یوں ہی نظرانداز کردیا جاتا رہا۔ کیا اڈمرل ڈی کے جوشی کے مستعفی ہونے سے بحریہ کا مسئلہ حل ہوگا ۔بحریہ نے اپنے فرسودہ اور دم توڑنے والی آبدوز کشتیوں کی جانب بار بار توجہ دلائی تھی۔ لیکن سیاسی وفاداری کے یونیفارم میں ملبوس بیوروکریٹس نے آبدوز کے لئے طویل مدتی منصوبہ بنانے میں کوتاہی سے کام لیا۔ اگر بحریہ کو عصری تقاضوں سے آراستہ کیا جاتا تو بحری بیڑہ اور آبدوز مہم کو مؤثر بنانے میں مدد ملتی۔ بحریہ کے پراجکٹس کے ساتھ کھلواڑ یا بچوں کا کھیل بناکر رکھ دینے کا نتیجہ آبدوز ملاحوں کی جانوں کو خطرہ میں ڈالنا اور بحریہ کی طاقت کو کمزور کرنے کا موجب بن گیا ہے۔ ہندوستانی بحریہ کے پاس روس سے لیز پر حاصل کردہ ایک نیوکلیر طاقت کی حامل آبدوز کے علاوہ 13 روایتی آبدوز کشتیاں ہیں۔
لیکن یہ تمام ایک سے 20 سال پرانی ہیں۔ ان میں سے آئی این ایس سندھو رتن آبدوز بھی تھی جس کے حادثہ میں دو ملاح ہلاک ہوئے۔ یہ حقیقت بھی افسوسناک ہے کہ 8 آبدوز کشتیاں ایسی ہیں جو 25 سال پرانی ہوچکی ہیں۔ آبدوز کشتیوں کی تیاری میں 25 ۔ 30 سال کی مدت کی سرویس کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے ان کی مدت ختم ہونے کو آتی ہے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبدوز کشتیوں کی مرمت کے باوجود ان میں ناکامی اور جوکھم کے اندیشے بڑھتے جاتے ہیں۔ ہندوستانی بحریہ کو نئی آبدوز کشتیوں کی شدید ضرورت ہے اگرچیکہ ’’پراجکٹ 75 انڈیا‘‘ کے ناشام سے 6 نئی آبدوز کشتیوں کے حصول کے لئے50,000 کروڑ روپیے کا بجٹ تیار کیا گیا تھا۔ لیکن اس پراجکٹ کو گزشتہ کئی سال سے منظوری حاصل نہیں ہوئی۔ نومبر 2007 ء سے وزارت دفاع نے پراجکٹ سے متعلق اُمور اور مسائل کا جائزہ لینے کیلئے اب تک کم از کم 3 کمپنیاں بناتی ہیں۔ اس سے وزارت دفاع کی عدم دلچسپی اور لاپرواہی ظاہر ہوتی ہے۔ اڈمرل جوشی کے استعفیٰ سے بحریہ کی بدقسمتی اور اس کی ابتری کو آشکار کرتی ہے۔ بجریہ کے پراجکٹ میں غیرمعمولی تاخیر سے ہندوستان کی اہم سلامتی شعبہ کو بُری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ اڈمرل جوشی نے آبدوز حادثات کو اپنی اخلاقی ذمہ داری متصور کرکے استعفیٰ دیا جبکہ یہ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ جوشی کے ساتھ سنگین ناانصافی نہیں کرتی۔ اگر وزیر دفاع اے کے انتونی اس واقعہ پر غور کریں تو انھیں بھی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ان کے دور وزارت میں بحریہ کو درپیش مسائل کی حادثاتی طویل فہرست موجود ہے۔ بحری جہازوں کی غرقابی سے لے کر آبدوز میں آگ بھڑکنے کے واقعات تک سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس ملک کے وزرائے دفاع کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ 20 سال کے دوران مرکزی بجٹ میں مختص ہونے والے دفاعی بجٹ کا حساب کتاب بد دیانتی سے بھرا ہوا ملے گا۔
بدعنوانیاں اس خرابی کی اصل جڑ ہوتی ہیں۔ یو پی اے حکومت کے دوران ہونے والی بدعنوانیوں کی سی اے جی آڈٹ رپورٹ ہو یا کوئی اور تحقیقاتی رپورٹ سے طویل فہرست سامنے آتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت اور وزارتوں یا بیوروکریٹس کا مواخذہ نہیں ہوتا۔ دیگر ملکوں میں دفاعی اُمور کے ساتھ لاپرواہی نہیں کی جاتی۔ ہندوستانی فوج کی حکمرانوں اور وزارتوں کے ناقص فیصلوں سے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر ملک کی سلامتی پر کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہندوستانی بحریہ کو درپیش حادثات کی وجہ جاننے کے لئے وزارت دفاع کو فوری حرکت میں آنا چاہئے کیوں کہ گزشتہ 7 ماہ کے دوران اس طرح کے 10 حادثے رونما ہوئے ہیں۔ حکومت، بیوروکریٹس اور مسلح افواج کے شعبوں کے درمیان تال میل میں کمی اور عدم اعتماد کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک خاص کر امریکہ اور چین کے پاس 50 سے زائد آبدوز کشتیاں ہیں جبکہ ہندوستانی بحریہ کے پاس کارکرد 10 آبدوز بھی نہیں۔ حکومت نے بحریہ کی ضرورتوں پر چشم پوشی اختیار کرلی ہے تو بحریہ میں اس طرح کے حادثے روکے نہیں جاسکیں گے اور اڈمرل ڈی کے جوشی کی طرح دیگر سربراہوں کو بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوکرین میں علیحدگی پسند احتجاج
دنیا کے مختلف ملکوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کو داخلی طور پر تائید حاصل ہوتی ہے تو بعض ملکوں میں علیحدگی پسند کارکنوں کو پڑوسی یا پھر دیگر ملکوں کی حمایت ملتی ہے۔ روس سے متصل ملک یوکرین بھی اِن دنوں انتشار کی نازک کیفیت سے دوچار ہے۔ یوکرین میں روسی زبان بولنے والے متعدد افراد نے صدر یانوکووچ کی برطرفی اور یوروپ کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت لانے کی مخالفت کی تھی جبکہ اس ملک میں کئی ماہ تک صدر یانوکووچ کو برطرف کرنے کے لئے احتجاج کیا جارہا تھا۔ پارلیمنٹ نے صدر کے مواخذے کے لئے رائے دہی بھی کی ہے۔ حکومت مخالف مظاہرے گزشتے سال نومبر سے جاری ہیں۔ صدر یانوکووچ نے پڑوسی ملک روس کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنانے کے بجائے یوروپی یونین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدہ کیا۔ عوام کے ایک گروپ کے لئے ناپسندیدہ بن گیا۔ عوام کی اکثریت یوروپی یونین سے کئے گئے معاہدہ کو مسترد کرتے ہوئے روس کے ساتھ تجارتی معاہدہ کو ترجیح دی تھی۔ تشدد کے نتیجہ میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پڑوسی ملک کی حیثیت سے روس کی کارکردگی دیوار پر کی بلّی معلوم ہوتی ہے۔ یوکرین کے حالات مقامی سطح پر عوام کے لئے عذاب بنتے جارہے ہیں۔ اس لئے کسی بھی ملک کو ان حالات کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔ عبوری صدر کی حیثیت سے اولیکساندر گورجینوف نے یوکرین کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے امن بحال کرنے پر زور دیا ہے۔ یوکرین کو علیحدگی پسندوں سے سنگین خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر یوکرین کے حالات پر قابو پانے کے بجائے جہاں کی آبادی کو روس کا حصہ بناکر یہاں کے شہریوں کو روسی پاسپورٹ تھمادیا گیا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی کیوں کہ اس طرح کے حساس مسئلہ کو چھیڑنے سے مزید آگ بھڑکے گی۔یوروپی یونین سے معاہدہ کے باعث یوکرین کے عوام کو معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط بنانے کے علاوہ پاسپورٹ فری زونس بنایا جائے تو یہ ملک یوروپی یونین کا رکن بن جائے گا۔ اس بات کو روسی زبان بولنے والے شہری قبول نہیں کریں گے۔ عوامی زندگیوں اور املاک کے علاوہ ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال کو بگڑنے سے بچانے کے لئے مفاہمانہ کوشش کی جانی چاہئے۔