اترپردیش اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لیے بی جے پی نے حاصل کی مسلم نمائندوں کی خدمات
بہار کی طرح نہیں مہاراشٹرا کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت
قسط دوم
نئی دہلی ۔ 30 ۔ مارچ : ( سیاست ڈاٹ کام ) : ریاست اترپردیش سیاسی اعتبار سے ملک کی اہم ترین ریاست ہے اس ریاست میں کبھی کانگریس کا غلبہ ہوا کرتا تھا لیکن علاقائی جماعتوں کے منظر عام پر آنے اور طاقتور ہوجانے کے باعث اترپردیش میں کانگریس اقتدار سے محروم ہوگئی ۔ کانگریس کی ناکامی کی ایک اور وجہ فرقہ پرستوں کے عزائم کو سختی سے کچلنے میں اس کی ناکامی رہی ۔ اس کے علاوہ اس نے پسماندہ طبقات خاص طور پر دلتوں کو اپنے ساتھ رکھنے میں بھی وہ ناکام رہی جب کہ اقلیتوں کی ترقی کے لیے اس نے بلند بانگ دعوے تو کئے لیکن ہمیشہ ان کا سیاسی استحصال کیا ۔ فرقہ پرستوں سے ان کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر رہی ۔ نتیجہ میں وہ یو پی میں اقتدار سے محرومی کے بعد ریاست میں معمولی سیاسی جماعت بن کر رہ گئی ہے ۔ واضح رہے کہ آئندہ سال ہندوستان کی اس سب سے بڑی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ بی جے پی اس ریاست میں ہر حال اقتدار حاصل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی طئے کرنے والی ٹیم نے اس مرتبہ بھی ریاست میں مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ نام نہاد مسلم قائدین اور جماعتیں اترپردیش کے انتخابی میدان میں اترکر مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ ان جماعتوں اور قائدین کے انتخابی میدان میں اترنے سے اسے دو فائدے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مسلم ووٹ مسلم جماعتوں ، ایس پی ، بی ایس پی اور کانگریس میں تقسیم ہوجائیں گے ۔ دوسرے ہندوؤں کے متحد ووٹ بی جے پی کی جھولی میں پہنچ جائیں گے ۔ مسلم جماعتوں کے انتخابی مقابلہ سے صرف اور صرف بی جے پی کو فائدہ ہونے والا ہے ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ضمن میں مسلم نمائندوں کے ساتھ زعفرانی پارٹی نے ایک معاہدہ بھی کیا ہے جس کے تحت ان مسلم نمائندوں سے کہدیا گیا ہے کہ آپ اپنے امیدواروں کو انتخابی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مسلم ووٹ تقسیم کرنے کے لیے اتار رہے ہیں ۔ ہندو ووٹوں کو متحد کرنا ہماری نہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اس عجیب و غریب بات پر بتایا جاتا ہے کہ ایک مسلم قائد نے زعفرانی پارٹی کے نمائندوں سے سوال کردیا کہ آخر ہم ہندو ووٹ کیسے متحد کرسکتے ہیں ؟ زعفرانی جماعت کے نمائندوں نے انہیں یہ کہتے ہوئے لاجواب کردیا کہ صاحب !! ہم ہندو کی بات نہیں کریں گے ہمارے قائدین ہندو ہندو بھائی کا رونا نہیں روئیں گے بلکہ آپ صرف مسلمان مسلمان کی صدائیں بلند کرتے رہئے ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا ۔ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ متحد ہوجائیں گے ۔ آپ کو ایسا ہی کام کرنا ہے جس طرح مہاراشٹرا میں آپ نے کیا کانگریس اور این سی پی کو اقتدار سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں دکھائی دے رہا تھا لیکن آپ نے وہ کارنامہ انجام دیا کہ سنگھ پریوار اور بی جے پی قیادت کو آپ کے اس احسان کا احساس ہے مگر یاد رکھئے بہار میں جو مظاہرہ کیا گیا اسے مت دہرائیے ۔ وہاں تو آپ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے ۔ بہار کے مسلمان آپ کی چکر میں نہیں آئے ہندوتوا فورس کی سازشیں نہیں بنیں ۔ ان لوگوں نے اپنے ووٹوں کا لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل ، نتیش کمار یادو کی جنتادل یو اور کانگریس پر مشتمل اتحاد کے حق میں متحدہ استعمال کیا ۔ بادشاہ گر مسلمانوں کی متحدہ تائید و حمایت کے باعث ہی بہار میں بی جے پی کو شکست کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ۔ ورنہ اسے ضرور کامیابی مل جاتی ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ اترپردیش کی جملہ آبادی کا 20 فیصد حصہ یعنی مسلمانوں کے ووٹ سیکولر جماعتوں میں بٹ جائیں ۔ بی ایس پی یا ایس پی کے حق میں مسلمان اگر متحدہ طور پر ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں تو ایسی صورت میں یو پی کے اقتدار پر فائز ہونے سے متعلق بی جے پی کا خواب چکنا چور ہوجائے گا ۔ گذشتہ انتخابات میں مسلمانوں نے متحد ہو کر سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالے تھے ۔ نتیجہ میں اسے زبردست کامیابی حاصل ہوئی ۔ 403 رکنی اسمبلی کے لیے ایس پی کے 224 ارکان منتخب ہوئے تھے ۔ سماج وادی پارٹی نے صرف 29.15 فیصد ووٹ حاصل کئے ۔ جب کہ دوسرے نمبر رہی مایاوتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی 25.91 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود 80 نشستوں پر کامیاب ہوسکیں ۔ صرف 3 فیصد ووٹوں کی کمی کے باعث اسے 126 نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ اگرمسلمان مایاوتی کی پارٹی کے حق میں متحدہ ووٹ کا استعمال کرتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی چونکہ ریاست کی آبادی میں مسلمان 20 فیصد ہے ۔ اس لیے انہیں اپنے ووٹوں کے استعمال میں بہار کے مسلمانوں کی تقلید کرنی ہوگی تب ہی وہ بی جے پی اور اس کے حواریوں کی سازشوں ان کے ناپاک عزائم و منصوبوں کو اس طرح خاک میں ملا سکتے ہیں جس طرح دہلی اسمبلی انتخابات میں اروند کجریوال نے موودی امیت شاہ اور سنگھ پریوار کی عزت خاک میں ملائی تھی ۔ اترپردیش میں اگر دلت اور مسلمان متحدہ ہوتے ہیں تو بی جے پی وہاں سے کامیاب ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی اس اتحاد سے صرف یو پی ہی نہیں سارے ملک کی سیاست میں ایک نیا انقلاب برپا ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے بہت ہی احتیاط سے اصلی اور نقلی ہمدردوں میں شناخت کرنی ضروری ہے ۔۔