…گزشتہ سے پیوستہ …
یہی حال اندلس میں عیسائی بادشاہ فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا نے مسلمانوں کا کیا ، اس وقت بھی مسلمان عیاشیوں میں مبتلا تھے ۔ رقص و سرود کی محفلیں آراستہ ہوتی تھیں، ان کے دسترخوانوں پر نوع بہ نوع کھانے ہوتے تھے ان کی دعوتوں میں بیسیوں طرح ڈشیں ہوتی تھیں۔ امرا نشہ و دولت میں بدمست تھے ، قومیتوں اور عصبیتوں کے جھگڑے تھے۔ خاندانی تفاخر تھا ۔ علماء لایعنی بحثوں میں مبتلا تھے ۔ ان کی موشگافیوں کا یہ حال تھا کہ وہ بال کی کھال نکال کر کھال کی کھلی نوچتے تھے ۔
یہی حال تاریخ کے اک دور میں ظالم و جابر ، کینہ پرور روہیلہ کی سفاکیوں کا ملتا ہے ۔ اس نے تیموری شان و شوکت کے پرخچے اُاردیئے ۔ اپنے نوک خنجر سے تیمور کی آنکھیں نکال دیں۔ شہنشاہی حرم کی نازنینوں کو اپنے سامنے ناچنے کا حکم دیا ۔ دختران تیمور اس کے سامنے رقص کرتی رہیں اور روہیلہ تخت شاہی پر بیٹھا ان کا رقص دیکھتا رہا، پھر اچانک اس نے اپنے سر سے خود اُتارا، کمر سے خنجر کھولا اور تخت پر لیٹ گیا، کچھ دیر بعد آنکھیں بند کرلیں، دختران حرم اسی طرح رقص کرتی رہیں، پھر وہ اُٹھا حرم کینازنینوں سے کہا، تمہیں اپنی بدبختیوں پر آنسو بہانے کا کوئی حق نہیں، میں سویا نہیں تھا بلکہ سونے کادکھاوا کررہا تھا اور تمہاری غیرت کو آزمارہا تھا کہ شاید کوئی دختر تیمور سوتا دیکھ کر مجھے قتل کرنے آجائے مگر تم بے غیرت ثابت ہوئیں۔
مگر یہ راز کُھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کاگئی تیمور کے گھر سے
اقبالؔ
میرے بھائی ! تمہیں تاریخی انقلابات کے ایسے کتنے قصے سناؤں کہاں تک تمہارے سامنے اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا رہوں، تم خود تاریخ کے اوراق کھول کر دیکھ لو۔ آٹھ سو برسوں کے مسلسل انعامات الٰہی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی مسلمانوں کی شان و شوکت کو انگریزوں نے کس طرح خاک میں ملایا۔ عالمگیر کے بعد خاندان مغلیہ کے اختلافات ، مسلمانوں کی فرقہ بندیاں ، انتشار و افتراق کی نیرنگیاں، امراء کی عیاشیاں ، علماء کی موشگافیاں، نام نہاد صوفیہ کی قوالیاں ، یہ سب عبرت سامانیاں ہیں۔ آخرکار مغلوں کے آخری تاجدار بہادرشاہ کی بدنصیبی دیکھو کہ اسے دو گز زمیں بھی اپنے دیار میں نصیب نہ ہوسکی ، شہزادے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگے ۔
بہمنی سلطنت کی تقسیم کی حال پڑھو اور خود حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی تاریخ پڑھو۔ چار سو سالہ زرین تہذیب و ثقافت اور عظیم الشان سلطنت کا کیوں خاتمہ ہوا ، مسلمانوں کی بے شعوری کی انتہا تھی کہ لاتور کے ایک چھوٹے خاندان کا جاہل تھرڈ کلاس پلیڈر بزعم خود دکن کا مجاہد اعظم اور خود فریب بادشاہ بن بیٹھا اور پوری قوم آنکھ بند کرکے اس کے پیچھے چل پڑی ۔ شہزادوں کے محلات میں ان کی عیاشیوں کی داستانیں سنو، بالآخر یہ ریاست کیسی سامان عبرت بن گئی ۔ تاریخ نے خود کو کس طرح دہرایا ، ابھی کل کی بات ہے ۔
سرزمین بنگال پر کیسا عظیم سانحہ ہوا جس نے سمرقند و بخارا ، بغداد و اندلس ، زوال سلطنت مغلیہ اور سقوطِ دکن کی یاد تازہ کردی ۔ جب بنگال کی سرزمین پر خون مسلماں کے ندی نالے بہہ رہے تھے ، اُس وقت تخت ریاست پر ایک عیاش حکمراں جنرل رانی کے ساتھ داد عیش دے رہاتھا۔
یہ تاریخی کہانیاں آج میں کیوں لے کر بیٹھ گیا، میری آنکھوں کے سامنے آنے والے دور کے وہ منظر گزر رہے ہیں جو ہماری تاریخ کے عظیم ترین سانحوں کو بھی پیچھے چھوڑ جانے والے ہیں۔ آخر یہ سانحے کیوں رونما ہوئے ۔ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں۔ ہم کو ان کا جائزہ لینا ہوگا ۔ ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا۔ ان سانحوں کے جو اسباب تھے وہ اسباب آج بھی اُمت مسلمہ میں پورے طورپر موجود ہیں۔ آخر کب تک ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کریں گے اور کب تک ہماری چشم عبرت محو خواب رہے گی ۔ اپنی تاریخ کے ان تمام سانحات کا بنیادی سبب صرف اور صرف یہ ہے کہ اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ نے ہم کو ’خیراُمت‘ کے جس منصب جلیل پر فائز کیا تھا ، ہم اپنا وہ منصب فراموش کرچکے ہیں۔ اﷲ اور اﷲ کے رسولؐ نے ہم کو اقوام عالم کا امام بنایا تھا لیکن ہم خدا ناترسوں، آخرت فراموشوں کے پیچھے چل پڑے ۔
خدا کے بندو ! خدا کے لئے پلٹ آؤ اپنی راہ پر ، اُس راہ پر جو ہمیں اﷲ اور اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے دکھائی ہے ۔ اسی راہ پر چل کر تمہیں منزل ملے گی ۔ اس کے علاوہ کوئی راہ تم کو منزل پر نہیں پہنچاسکتی ۔ تاریخ سے جو قومیں سبق حاصل نہیں کرتیںوہ صفحۂ ہستی سے مٹادی جاتی ہیں ۔
فاعتبروا یا اولی الابصار