ہمارے گاوں کی روایت

مُلا نصرالدین کو اپنے گاوں میں قاضی مقرر کردیا گیا ۔ ایک روز ایک آدمی مُلا کی عدالت میں ہانپتا کانپتا آیا اور انصاف کیلئے فریاد کرنے لگا :
جناب عالی ! اس گاوں کے پاس ہی مجھے لوٹ لیا گیا ہے ۔ لوٹنے والا ضرور اسی گاوں کا ہے ۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ملزم کو تلاش کرائیں وہ میرے کپڑے تلوار اور جوتے تک لے گیا ۔
مجھے اپنا معائنہ کرنے دو۔ اس کا پوری طرح سے معائنہ کرنے کے بعد مُلا نے جواب پوچھا:
تمہارے جسم پر بنیان ابھی تک موجود ہے کیا اس نے بنیان نہیں اتاری ؟
’’ نہیں ‘‘
پھر یہ مجرم ہمارے گاوں کا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے یہاں ایسے ادھورے کام نہیں ہوتے
نوہی دے دو …
مُلا نے خواب میں دیکھا کہ میں سکے گن رہا ہوں ۔ مُلا
کے ہاتھ میں سونے کے نو سکے تھے کہ سکے دینے والی غیبی طاقت نے سکے دینے بند کردیئے ۔
مجھے دس ملنے چاہئیں ۔
آواز اتنی بلند تھی کہ خود مُلا
کی آنکھ کھل گئی ۔ ساری رقم جاتے دیکھ کر مُلا
نے پھر سے آنکھیں بند کیں اور بڑبڑایا :
اچھا اچھا وہی نو واپس کردو میں نو ہی لے لیتا ہوں۔