حیدرآباد ۔ 3 ڈسمبر (سیاست نیوز) کرنسی بحران کا 25 دن بعد وہی حال ہے جو پہلے دن تھا۔ پہلی تاریخ کے بعد عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آر بی آئی کی جانب سے بھاری رقم ریاست کے بینکوں کو پہنچ جانے کی اطلاعات ہیں مگر عوام نقد رقم سے محروم ہیں۔ گھنٹے دو گھنٹوں میں بینکوں کے سامنے نو کیاش کے بورڈ آویزاں کئے جارہے ہیں۔ اے ٹی ایم میں رقم نہیں ہے۔ علاج کیلئے، اشیائے ضروریہ کیلئے رقم نہ ہونے سے عوام کی آنکھیں نم ہیں۔ ریٹائرڈ ایمپلائز قطاروں میں ٹھہرنے کیلئے مجبور ہیں۔ بینکوں کے سامنے قطاروں میں ٹھہرنے والے عوام نے بتایا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک فیصلے سے ہمیں فقیر بنادیا ہے۔ ہمارے اپنے محنت کے پیسے بینکوں سے نکالنے کیلئے قطاروں میں کھڑا کردیا ہے۔ بینکوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے رہنے والے عوام کی الگ الگ پریشانی ہے۔ ایک ریٹائرڈ ملازم جنگیا نے بتایا کہ وہ بلڈ پریشر اور شوگر کا مریض ہے۔ وظیفہ لینے کیلئے تین گھنٹوں سے بھوکا پیاسا قطار میں کھڑا ہوں۔ کاؤنٹر تک پہنچنے تک بینک میں کیاش رہے گا یا نہیں اس کی فکر انہیں کھائے جارہی ہے۔ ادویات خریدنے اور میڈیکل ٹسٹ کرانے کیلئے پیسے نہیں ہے۔ دوسروں سے کتنے دن پیسے بدل لے سکتے ہیں۔ ایک سرکاری ملازم نے بتایا کہ وہ آدھے دن کی رخصت لگا کر قومیائے بینک کی قطار میں کھڑا تھا۔ تاہم ایک دن رقم نکالنے سے محروم رہا۔ آج دوبارہ قطار میں کھڑا ہوں۔ اگر آدھے دن رخصت میں رقم مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ ایک دن کی رخصت حاصل کرلوں گا مگر ایک دن کی رخصت حاصل کرنے پر بھی بینک سے رقم ملنے کی ضمانت نہیں ہے۔ اخبارات اور ٹیلیویژن پر دیکھ رہے ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے ریاست کو 1800 کروڑ روپئے روانہ کئے ہیں مگر یہ کہاں گئے اس کا کوئی پتہ نہیں ہے کیونکہ بینک کھولتے ہی گھنٹے دو گھنٹے میں کیاش ختم ہوجانے کی بینکوں کی جانب سے اطلاع دی جارہی ہے۔ اے ٹی ایم سنٹرس پر گھنٹوں قطاروں میں ٹھہرنے کے باوجود رقم نہیں مل رہی ہے۔ جائے تو کہاں جائے۔ کریں تو کس سے فریاد کریں۔ کوئی ہمارا سننے والا نہیں ہے۔ عمران نامی نوجوان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے چند دن صبر کرنے پر مسئلہ حل ہوجانے کا تیقن دیا تھا۔ 25 دن ہونے کے بعد کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے بلکہ عوامی مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ بینکوں کے سامنے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کوئی بھی چھوٹا بڑا قائد بینکوں کے سامنے لائن میں کھڑا نہیں ہے۔ ان کے پاس پیسے کہاں سے آرہے ہیں اور منسوخ شدہ نوٹ کیسے تبدیل ہورہے ہیں۔ ساری مصیبتیں غریب و متوسط طبقہ کو جھیلنی پڑ رہی ہے۔ وہ دو بینکوں اور تین اے ٹی ایم سنٹرس کا چکر لگا چکے ہیں۔ ہر جگہ نوکیاش کے بورڈ لگا دیئے گئے ہیں۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہیکہ ہر بینک کو روزانہ ایک کروڑ روپئے کیاش کی ضرورت ہے، مگر آر بی آئی کی جانب سے 5 تا 20 لاکھ روپئے ہی روانہ کئے جارہے ہیں۔ ہر کھاتہ دار کو ہفتہ میں ایک مرتبہ 24 ہزار روپئے بینک اکاؤنٹ سے نکالنے کی سہولت دی گئی ہے، مگر کوئی بھی بینک ان قواعد پر عمل نہیں کررہا ہے۔ بینک میں رقم موجود نہ ہونے اور دوسرے کسٹمرس کو بھی رقم دینے کا استدلال پیش کررہے ہیں۔ ہمیں اپنی محنت کی کمائی دینے کیلئے بینکوں میں رقم نہیں ہے مگر میڈیا میں روزانہ خبریں پڑھنے کو مل رہی ہے۔ درمیانی افراد اور بینک ایمپلائز کے سازباز سے کروڑہا روپئے کی نئی کرنسی پولیس کے ہاتھوں پکڑی جارہی ہیں۔ ایک خاتون شاہین سلطانہ نے بتایا کہ وزیراعظم کے ایک فیصلے سے انہیں گھر سے باہر نکلنے اور بینکوں کی قطاروں میں ٹھہرنے کیلئے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ بینکوں کی جانب سے 2000 روپئے کی نوٹ دی جارہی ہے۔ چلر نہ ہونے کی وجہ سے مارکٹ میں اس کو قبول کرنے کیلئے دوکاندار تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں 2000 روپئے کی نوٹ کا کیا فائدہ۔ حکومت چلر کا انتظام کرے۔ ایک اور خاتون نے بتایا کہ بینک کھولنے سے قبل ہی بھیڑ جمع ہورہی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوری میں قطار میں کھڑے ہونا پڑ رہا ہے۔