ہلال عید اور ارض فلسطین

جب ہلالِ عید آتا تھا نظر افلاک پر
عید کی خوشیاں لئے دامن میں دیتا تھا نوید
اور پس منظر میں اس کے پھولتی تھی یوں شفق
پھیلتی جاتی تھیں مغرب کے افق پر سرخیاں
جیسے ڈھلتی رات میں چھیڑا ہو مطرب نے کہیں
ساز پر اپنے کوئی نغمہ وصالِ یار کا
شرم کی سرخی ہو پھیلی یوں حسیں رُخسار پر
وادیٔ کشمیر میں بکھریں گویا برگ چنار
اب ہلالِ عید پھر آیا نظر افلاک پر
نوکِ خنجر سے ٹپکتے سرخ قطرے خون کے
سرزمینِ فلسطیںسرخ ہو اس خون سے
بے گناہوں کا لہو سیراب کرتا ہے اسے
گویا اسرائیل کا خنجر دَھنسا ہے قلب میں
جل رہی ہیں بستیاں منڈلاتے ہیں قاتل جہاز
پھر رہی ہے برہنہ سر چیختی ہر سٗو حیات
جانے کیوں اُٹھتا ہوا پھر یہ دُھواں خاموش ہے
عید پھر کیسے منائیں آج ہم سید مجیبؔ
پھر ہلال عید آیا ہے نظر افلاک پر

سید مجیبؔ، نیوزی لینڈ