عبادت کا لفظ عبد سے نکلا ہے، عبادت کے معنی ہیں غلام بننا اور غلام بن کر اپنے آقا کی رضا و خوشنودی کے کام کرنا۔ اگر کسی کے متعلق یہ کہا جائے کہ فلاں شخص بیوی کا غلام ہے، تو اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ وہ بیوی کی رضا اور خوشنودی کے پیش نظر اس کی ہر فرمائش پوری کرتا ہے۔ اس کے ہر حکم کی تعمیل اس طرح کرتا ہے، جس طرح کوئی غلام اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے غلام بن کر خلوص و محبت سے اس کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے، خواہ وہ حکم ہماری مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہمیں تو صرف اس کی رضا اور خوشنودی کو پیش نظر رکھنا ہے۔ عبادت کا مغز ہی یہ ہے کہ ہمارے ہر کام سے اپنی عبدیت اور بندگی ظاہر ہو، اس طرح ہمارا ہر کام عبادت بن جائے گا۔ نماز، روزہ، حج اور زکوۃ تو بلاواسطہ عبادت ہے ہی، لیکن اس کے علاوہ سونا، جاگنا، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ، بولنا چالنا، ملنا جلنا، کمانا اور خرچ کرنا، لڑنا بھڑنا، جینا مرنا، ہر کام عبادت بن جائے گا، بشرطیکہ وہ اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے، لیکن یہ عبادت بالواسطہ ہوگی، یعنی اعمال و افعال کے حوالے سے۔
اب عبادت کی دوسری تقسیم پر غور کیجئے!۔ ایک عبادت فرض ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر واجب کردی گئی ہے، اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے، جسے قرب فرائض کہا جاتا ہے۔ حدیث قدسی میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ فرائض کی ادائی سے میرا جتنا قرب حاصل ہوتا ہے، اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مقام پسندیدگی ہے۔ دوسری عبادت نفل ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب تو نہیں ہوئی، لیکن بندہ اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے۔ اس کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’بندہ ادائے نوافل کے ذریعہ مجھ سے قریب تر ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے چاہنے لگتا ہوں اور پھر میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں، جس سے وہ بولتا ہے۔ میں اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے‘‘۔ یہ درجۂ محبوبیت ہے، یہاں بندہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے دائرے سے نکل کر اللہ کے محبوب کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس دائرے میں اسے ’’محبوب الہٰی‘‘ اور ’’معشوق ربانی‘‘ جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مقامِ فنا ہے، یہاں بندہ فانی فی اللہ ہوکر باقی باللہ ہو جاتا ہے۔
فرائض چوں کہ محدود ہیں، اس لئے اس سے حاصل ہونے والا قرب بھی محدود ہوتا ہے اور نوافل چوں کہ لامحدود ہیں، اس لئے ان سے حاصل ہونے والا قرب بھی لامحدود ہوتا ہے، اس لئے فرائض کے بعد نوافل کو غیر اہم سمجھ کر چھوڑ نہ دینا چاہئے۔ اخلاص و محبت اور پابندی کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہو، اس کے آستانے پر سجدہ ریز رہو، اس آستاں سے سر اُٹھاکر کہاں جاؤ گے؟ کوئی اور ایسا آستاں ہے؟۔ یہاں سے سر اٹھاکر تم کسی اور دروازے پر عزت حاصل نہیں کرسکتے، عزت اسی آستاں کی جبیں سائی میں ہے۔ کوئی صاحب عزت جب خدا کے دَر سے اپنا سر اٹھا لیتا ہے تو پھر کسی اور دروازے پر اس کو عزت نصیب نہیں ہوتی، اس لئے اسی بابِ عزت پر پڑے رہو، عزت صرف اور صرف یہیں ملتی ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’عزت میرے دروازے پر ہے، لوگ اسے بادشاہوں کے درباروں میں ڈھونڈتے ہیں، انھیں کیسے ملے گی؟‘‘۔
قرب نوافل کے باوجود بندہ ہر وقت بندہ رہتا ہے، خواہ کتنا ہی ترقی کرلے اور رب، رب ہی رہتا ہے، خواہ کتنا ہی نزول فرمالے، یہ دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔
بندگی کی تین جہتیں ہیں، ایک اعتقادی، دوسرے عملی اور تیسرے تعظیمی۔ اعتقادی جہت یہ ہے کہ بندہ ہر وقت خود کو بندہ سمجھے اور اللہ تعالیٰ کو اپنا آقا سمجھے کہ وہی میرا خالق ہے، وہی میرا مالک ہے، وہی میرا حاکم ہے، وہی میرا رب ہے، وہی میرا رازق ہے، وہی میرا محافظ ہے، اس کی وفاداری میرا فرض ہے، اس کے سوا کوئی اور میری وفاداری کا مستحق نہیں۔ بندگی کی دوسری جہت عملی ہے اور وہ یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اس کا حکم مانے، اس کی حضوری سے منہ نہ موڑے، ہر وقت اس کی رضا ڈھونڈتا رہے، ہر وقت اس کی غلامی کرے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہمہ وقتی غلام ہے، جزوقتی غلام نہیں۔ یہ ہرگز نہ سمجھے کہ میں اتنی دیر غلام ہوں اور اتنی دیر آزاد ہوں۔ بندگی کی تیسری جہت تعظیمی ہے۔ خدائے تعالیٰ کی عظمت اور ادب کو ملحوظ رکھے، اس کی حمد و ثنا کرتا رہے، اس کی بڑائی اور ہر عیب و نقص سے اس کی پاکی بیان کرتا رہے۔ بس ان ہی تین اضلاع سے مل کر جو مثلث بنتا ہے، اسی کا نام عبادت کاملہ ہے۔
دنیا کے کام کاج چھوڑکر گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا نام عبادت نہیں، بلکہ اسی دنیا میں رہ کر جسم و جان اور مخلوق کے حقوق، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کرنے کا نام عبادت ہے۔ یہ عبادت کا ایک وسیع تصور ہے۔ یہاں آپ کا ہر عمل اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ سونا، جاگنا، کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، بولنا چالنا، ملنا جلنا، ہنسنا رونا، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو، تاکہ پوری زندگی عبادت بن جائے۔
گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر تسبیح کے دانے گرانا عبادت نہیں، بلکہ عبادت کی روح یہ ہے کہ کاروبارِ حیات میں پھنس جاؤ اور پھر اس کی ہنگامہ خیزیوں میں خدا کو یاد رکھو، یہ عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے والی دنیا میں پھنس کر بھی اس سے غافل نہ ہو، یہ ذکر ہے کہ وہ ہر حال میں یاد رہے۔ عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پانچ وقت اس کے سامنے سجدہ کرلو، باقی سارا وقت چھٹی اور پھر جو چاہے کرتے پھرو۔ یہ عبادت کا جاہلانہ تصور ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام کا تصورِ عبادت تو یہ ہے کہ بازاروں میں خرید و فروخت کرو اور خدا کے حکم کے مطابق کرو۔ ناپ تول میں کمی نہ کرو، ذخیرہ اندوزی نہ کرو، خریداروں کو دھوکہ نہ دو، سماجی امور انجام دیتے وقت یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے، یہ نہ دیکھو کہ رسم و رواج کیا ہے، باپ دادا کا طریقہ کیا ہے اور برادری کیا کہتی ہے۔ اگر خدا کا حکم نظرانداز کرکے دوسروں کی روش اختیار کرلی تو گویا تم نے خدائی میں کسی کو شریک کرلیا۔ غرض ہر معاملے میں حکمِ خدا کو پیشِ نظر رکھو۔ یہ نہ دیکھو کہ تمہاری عقل اور تمہارا دل کیا کہتا ہے، بلکہ یہ دیکھو کہ خدائے تعالیٰ کیا کہتا ہے، اس طرح تمہارا ہر کام عبادت بن جائے گا۔ (اقتباس)