تاریخ اسلام شاہد ہے کہ ابتدائے آفرینش ہی سے حق اور باطل ہمیشہ برسرپیکار رہے ہیں۔ یہ دراصل نور و ظلمت اور ایمان و کفر کی قوتوں کے درمیان ایسا تصادم اور ٹکرائو ہے جو ازل سے شروع ہو ا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابد تک کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان دونوں مخالف طاقتوں کے مابین نہ کبھی صلح ہوگی اور نہ کبھی اس جنگ کا خاتمہ ہوگا۔ ہاں البتہ حق و باطل کی اس جنگ کے فوجوں‘ کمانڈروں اور میدانوں میں وقتاً فوقتاً تبدیلی ہوتی رہے گی لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ایسے ہر محاذ پر ہر بار حق کو فتحِ مبین اور باطل کو شکستِ مہین ہوئی اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی جس کی شہادت اس قرآنی اعلان سے ہوتی ہے ’’جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا(بنی اسرائیل۔۸۱)‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام کے عالم وجود میں آتے ہی حق و باطل کی یہ جنگ چھڑ گئی جس میں حضرت آدم علیہ السلام حق کے علم بردار تھے اور آپ کے مقابل باطل کی قوت کا سرغنہ ابلیس لعین تھا۔ نور و ظلمت کے درمیان اس محاذ جنگ پر حضرت آدم علیہ السلام منصور و کامیاب ثابت ہوے اور باطل کی ابلیسی طاقت شکست فاش کی ذلت سے دوچار مردود و مقہور ہوگئی۔ آگے زمانہ بدلا تو اسی جنگ کا میدان بدلتا گیا اور دونوں طرف کے کمانڈر بھی بدلتے گئے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے مد مقابل نمرود نے ‘ پھر حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے سامنے فرعون نے اور حجاز میں سرور عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ ابولہب نے نبرد آزمائی کی جبکہ خلیل اللہ‘ کلیم اللہ اور رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام میں سے ہر ایک صداقت کا پرچم لئے حقانیت رحمانی کی طاقت کے سپہ سالار تھے تو اُن کے خلاف علی الترتیب نمرود‘ فرعون اور ابولہب میں سے ہر ایک باطل کے شیطانی لشکر کے کمانڈر کی حیثیت زورآزمائی پراُترآئے تھے۔لیکن ان میں سے ہر معرکہ کا کیا انجام ہوا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ و سیرت کے اوراق گواہ ہیں کہ حق و باطل کی اس جنگ میں نور و ظلمت کے اس تصادم میں اور کفر و ایمان کی اس لڑائی میں حق کا بول بالااور باطل کا منہ کالا ہوا۔ کچھ عرصہ بعد حق و باطل کی جنگ کا محاذ کربلا کی سرزمین پر منتقل ہوا جہاں پرچم حقانیت کے علمدار اور بہتر(۷۲) نفوس قدسیہ پر مشتمل مختصر حقانی فوج کے سپہ سالار حضرت امام عالیمقام حسینؓ نامدار ہیں اور باطل پرست بیس ہزار اشقیاء کے لشکر جرار کی کمان یزید پلید کے ہاتھوں میں ہے۔ سرزمین کربلا کا ذرہ ذرہ گواہ ہے کہ اس معرکہ حق و باطل میں امام برحق نے اپنے اہلبیت کے ساتھ خود اپنا سرکٹا کر اپنی بے مثال قربانیوں کے ذریعہ دین اسلام کو نئی زندگی عطا فرمادی ۔ یزید کی باطل پرستیاں مٹ گئیں اور وہ چراغ ہدایت کو بجھانے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف فتح مبین کا سہرا امام حسین رضی اللہ عنہ ہی کے سر رہا اور ان شاء اللہ آپ کا یہ کارنامہ قیامت تک ناقابل فراموش رہے گا۔لیکن چند گوشوں سے آج کل یہ فتنہ پھیلا جارہا ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے نعوذباللہ یزید پلید کے خلاف بغاوت کی تھی اور کربلا میں فساد و خونریزی کے آپ ہی ذمہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ پروپگنڈہ بھی کیا جارہا ہے کہ یزید دراصل ایک صالح اور متقی ‘ خلیفہ برحق تھا بلکہ اس کے نام کے ساتھ امیرالمومنین کا لقب اور رضی اللہ عنہ کے الفاظ تک بولے اور لکھے جارہے ہیں۔
اہل علم و تحقیق ہی نہیں بلکہ عقل سلیم رکھنے والا ایک عام شخص بھی اس پر یقین رکھتا ہے کہ کسی واقعہ کے بعد زمانہ قریب میں دستیاب شواہد و حقائق پر مشتمل معتبر مورخین وسیرت نگاروں کی تصانیف ہی مستند اور مسلمہ ہوتی ہیں۔ لیکن ان سب کو بالکلیہ بالائے طاق رکھتے ہوے آج معرکۂ کربلا سے تقریباً چودہ صدیوں بعد اصل واقعات کے عین برعکس‘ مفروضہ قصوں اور کہانیوں کے ذریعہ حقائق کو توڑ موڑ کر اس طرح پیش کرنا علانیہ کذب بیانی ‘ اقترا پردازی اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا مفسدین و دشمنانِ اہلبیت کے اس مکر و فریب اور کذب و افزا کو بے نقاب کرنا وقت کا تقاضا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی خود بخود نظر آجائے اور سادہ لوح عوام گمراہ ہونے نہ پائیں۔
آج سے کئی صدی قبل تحریر و مرتب کی ہوئی احادیث و آثار اور تاریخ و سیرت کی ثقہ و مسلمہ کتب یعنی بخاری شریف۔ ہدایہ نہایہ۔ صواعق محرقہ۔ دلائل النبوۃ۔ حاکم۔ شرح عینی۔ کنز العمال‘طبقات ابن سعد کامل بن اثیر‘ اسد الغابہ ‘ تاریخ الخلفاء‘ اصابہ اور شرح عقائد نسفی سے ماخوذ مضامین کا خلاصہ درجِ ذیل کیا جارہا ہے تاکہ حقائق کا پتہ چل جائے۔ حضوررسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر پیشین گوئی فرمادی تھی کہ میری امت کی ہلاکت چند بیوقوف لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔ نیز فرمایا کہ پہلا وہ شخص جو میری سنت کو بدلے گاہ وہ بنی امیہ سے ہوگا جس کو یزید کہا جائے گا۔ یہ بھی ارشاد نبوی ہے کہ میری امت کا معاملہ عدل کے ساتھ قائم رہے گا حتیٰ کہ پہلا شخص جو اس کو تباہ کردیگا وہ بنی امیہ میں سے ہوگا جو یزید کہلائے گا۔ مخبر صادق صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشاد کی لفظ بہ لفظ تصدیق ہوگئی جبکہ مذکورہ بالا کتب کے بموجب سبط رسول‘ جگر گوشہ علی و بتول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کہ جن کی طہارت ‘ شرافت اور نجابت کااعلان قرآن پاک قیامت تک کرتا رہے گا اور جن کے فضائل احادیث شریفہ میں ہمیشہ جگمگاتے رہیںگے۔
مذکورہ کتب سے ثابت ہے کہ یزید شقی و بدبخت ‘ ظالم و جابر‘ فاسق و فاجر‘ شرابی و بدکار‘ بے ادب و بداخلاق‘ بدعتی و فتنہ پرداز‘ سنتوں کو بدلنے والا‘ دین میں رخنہ ڈالنے والا‘ حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے والا‘ اہلبیت رسول کی بے حرمتی کرنے والاتھا۔ اس کے علاوہ آلات لہو و لعب کے ساتھ گانا بجانا‘ شکار کھیلنا‘ بے ریش لڑکوں کو رکھنا‘ کتوں کو پالنا‘ سینگوں والے دنبوں‘ ریچھوں اور بندروں کو آپس میں لڑاتے رہنا یزید کے محبوب مشاغل تھے۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جبکہ وہ شراب سے مخمور نہ رہتا ہو۔چنانچہ واقدی نے حضرت عبد اللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے یزید پر اس وقت خروج کیا جبکہ ہم کو یہ ڈر ہوگیا کہ کہیں یزید کی بداعمالیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے ہم پر پتھروں کا عذاب نہ برسنے لگے کیوں کہ یہ شخص مائوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ نکاح جائز قراردیتا‘ شراب نوشی کرتا اور نمازیں ترک کردیتا تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تو یزید اس قدر بے لگام ہوگیا کہ زنا‘ لواطت‘ حرام کاری‘ بھائی بہن کے درمیان نکاح‘ سود کا لین دین اور شراب نوشی وغیرہ عوام میں تک علانیہ رائج ہوگئے لوگوں میں نمازوں کی پابندی اُٹھ گئی۔ آخر میں یزید کی شیطانیت یہاں تک پہنچی کہ (۶۳) ہجری میں اس نے کئی ہزار کا لشکر بھیج کر پہلے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا جہاں یزیدی فوج نے قتل و غارت گری کرکے سات سو بے گناہ صحابہ کرام سمیت دس ہزار کے لگ بھگ محبان رسول و آل رسول کو شہید کردیا پاک دامن عورتوں کو تین شبانہ و روز اپنے اوپر حلال کرلیا۔ روضہ نبوی کی بے حرمتی کی۔ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے جن کی لید اور پیشاب سے منبر اطہر گندا ہوگیا۔ اس کے بعد مکہ معظمہ پر حملہ کیا گیا۔ پتھر برسائے گئے جس سے کعبہ کی دیواریں‘ ستون اور چھت منہدم ہوگئے نیز روئی اور گندگ کے گولے جلاکر کعبہ پر پھینکے گئے جس سے کعبہ کا غلاف اور اس میں رکھے تبرکات جل کر خاکستر ہوگئے اور ٹھیک اُسی روز شہر حمص میں یزید پرایسا عذاب الٰہی نازل ہوا کہ وہ طرح طرح کے امراض خبیثہ میں گرفتار ہونے کے بعد تڑپ تڑپ کر مرگیا۔
بعض دشمنانِ اہل بیت یزید پلید کو جنتی قرار دینے کے لئے اس کو صحابی بھی قراردیتے اور اس کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہتے اور لکھتے ہیں حالانکہ وہ تو دور نبوی تو کجا خلافت صدیقی و فاروقی میں بھی نہیں بلکہ خلافت عثمانی میں پیدا ہوا ہے اس طرح وہ صحابی کہاں سے بن گیا؟ بعض مفسدین‘ یزید کو مغفرت یافتہ قراردینے کی غرض سے بخاری شریف کی ایک حدیث شریف کا حوالہ دے کر ناواقف عوام کو فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جہاد قسطنطنیہ میں یزید اُس لشکر اسلامی کا امیر تھا جس کی مغفرت کی بشارت حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پہلے ہی دے دی تھی۔ یہ سب کچھ بھی دروغ بیانی اور مکاری کے سوا کچھ نہیں۔ حدیث شریف میں ’’اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِیْ‘‘یعنی میری امت کا پہلا لشکر کے الفاظ ہیں ۔واضح باد کہ قسطنطنیہ پر اسلامی لشکر کے کئی حملے ہوے جن میں پہلا حملہ ۳۲ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔ قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ ۴۳ھ میں حضرت بسربن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوا اور تیسرا حملہ ۴۴ھ یا ۴۶ھ میں ہوا جس کے امیر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہما رہے جس کی تصدیق ابودائود سے بھی ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی بھی اسلامی لشکر میں یزید کے شریک ہونے کا کوئی ثبوت کسی جگہ نہیں ملتا۔ بلکہ کامل ابن اثیر میں تو ہے کہ ۵۹ یا ۶۰ ہجری میں قسطنطنیہ کی طرف حضرت سفیان بن عوف رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری میں جو لشکر جرار بھیجا تھا اس میں شریک ہونے کا حکم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو دیا تھا لیکن یزید حیلے بہانے کرکے بیٹھ رہااور اس نے جہاد میں شرکت ہی نہیں کی۔ لہٰذا بخاری شریف کی مذکورہ حدیث سے یزید کا کوئی تعلق نہیں جس کے بعد یزید کو جنتی اور مغفرت یافتہ قرار دینے کے فریب کا پول کُھل جاتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ یزید پلید اور اس کے ساتھیوں کا و نیز یزید کی تعریف و توصیف کرنے والوں کا بڑا عبرتناک انجام ہوا ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔المختصر حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کاارشاد ہے اَلْمُرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ یعنی جو شخص جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کا اسی کے ساتھ حشر ہوگا۔ ہم حسینیوں اور محبانِ حسین کا حشر ان شاء اللہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوگا اور یزیدیوں کا حشر یزید پلید کے ساتھ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہرکسی کو سچی محبت رسول و اٰل رسول عطا فرمائے۔آمین
(م ق س ش ا ع ص)
علامہ ملا علی قاری ؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں بعض جاہلوں کی یہ افواہ کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی تھے باطل اور خارجیوں کی بکواس ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’وَلَا تُطِیْعُوْا اَمْرَا لْمُسْرِفِیْنَ الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ(شعرا۔ ۱۵۱‘ ۱۵۲)‘‘ یعنی اور حد سے بڑھ جانے والوں کا حکم نہ مانو جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ اور حدیث نبوی ہے ’’لَاطَاعَۃَ فَمَنْ عَصَی اللّٰہَ‘‘ یعنی اس کی اطاعت نہیں جو اللہ کی نافرمانی کرے۔ لہٰذا یزید کی بیعت و اطاعت سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا انکار بغاوت ہرگز نہیں بلکہ اللہ اور رسول کے احکام کے عین مطابق تھا اس کو بغاوت کہنے والا خود خدا و رسول اور شریعت کا باغی و نافرمان قرار پاتا ہے۔
اس کے برعکس حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ یزید سے فسق و فجور تواتر سے ثابت ہے علامہ تفتازانی فرماتے ہیں یزید کو بُرا بھلا کہنے اور اس کے نام سے لعنت کرنے کو علماء کرام نے جائز قرار دیا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ یزید کو کافر کہتے اور اس کا نام لے کر لعنت بھیجتے ہیں۔ بنی امیہ کے خلیفہ حضرت عمر بن العزیز رضی اللہ عنہ نے یزید کو امیر المومنین کہنے والے ایک شخص کو سزا دیتے ہوئے بیس کوڑے لگائے۔