!ہر ایک کا سر ہماری چوکھٹ پر جھکتا ہے

فلور لیڈر کے بیان پر سوشیل میڈیا میں مباحث، اقتدار وقت سے خفیہ ملاقاتوں کی پردہ پوشی کیوں؟ ، عوام سب کچھ جانتے ہیں

حیدرآباد ۔ 27۔ نومبر (سیاست نیوز) ’’حکومت چاہے کسی پارٹی کی ہو ، اس کے چیف منسٹر کو ہماری چوکھٹ پر جھکنا پڑتا ہے ‘‘۔ مقامی جماعت کے فلور لیڈر اکبر اویسی کا یہ متنازعہ بیان ان دنوں سوشیل میڈیا میں کافی وائرل ہوچکا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس مسئلہ پر مباحث جاری ہے۔ متحدہ آندھراپردیش اور علحدہ تلنگانہ میں برسر اقتدار پارٹیوں سے قربت رکھتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے شہرت رکھنے والی مقامی جماعت کے قائد نے اپنے ریمارکس کے ذریعہ ٹی آر ایس قائدین کو بھی ناراض کردیا ہے۔ مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے انداز میں فلور لیڈر کے اس ریمارک پر تبصرہ کیا اور پارلیمانی جمہوریت کیلئے اس طرح کے ریمارکس کو خطرہ بتایا ہے۔ بی جے پی نے ٹی آر ایس قائدین کی عزت نفس کو للکارنے کی کوشش کی ہے کہ اس قدر توہین آمیز ریمارک کے باوجود حلیف جماعت کی حیثیت سے برقرار رکھنا کھلم کھلا بے شرمی کی علامت ہے۔ فلور لیڈر نے اپنے رائے دہندوں کو خوش کرنے کیلئے یہ ریمارک کیا لیکن ٹی آر ایس قائدین اور اس کے سربراہ کے سی آر ابھی بھی انتخابی مہم میں مجلس کو اپنی حلیف جماعت کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ٹی آر ایس کو یقین ہوچکا ہے کہ انتخابات میں شکست ہوگی۔ لہذا آخری سہارے کے طور پر مجلس کا دامن تھام لیا گیا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ ٹی آر ایس کے قائدین فلور لیڈر کے اس ریمارک پر کوئی تبصرہ کرنے کی ہمت کرنے سے قاصر ہے کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کسی بھی تبصرہ سے منع کردیا ہے ۔ سوشیل میڈیا میں مختلف گوشوں کی جانب سے اکبر اویسی کے ریمارکس پر دلچسپ تبصرے سامنے آئے ہیں۔ بعض افراد نے کہا کہ ہر برسر اقتدار پارٹی سے قربت حاصل کرتے ہوئے مفادات کی تکمیل مقامی جماعت کا شیوہ ہے۔ انتخابات میں اس طرح کے بیانات کوئی نئی بات نہیں اور نتائج کے بعد مقامی جماعت کے قائدین حکومت کے در پر دکھائی دیتے ۔ اندرا گاندھی کے دارالسلام آنے کے واقعہ کا سہارا لیکر کانگریس و تلگو دیشم کے چیف منسٹرس کو نشانہ بنایا گیا۔ اگر مقامی جماعت کے قائدین کی چیف منسٹرس کے دربار میں حاضری کی تفصیلات نکالی جائے تو کھلے عام اور درپردہ ملاقاتوں کی طویل فہرست تیار ہوجائے گی ۔ اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میں نمائندگی کیلئے گئے تھے لیکن ہر نمائندگی کے درپردہ مقامی جماعت کے مفادات ضرور ہوتے ہیں۔ کانگریس کے ایک قائد نے کہا کہ ہر چیف منسٹر کا مجلس کی چوکھٹ پر سر جھکانے کا دعویٰ اس لئے بھی جھوٹا ہے کہ آندھراپردیش کے آخری چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے مجلس کو سبق سکھایا تھا۔ مجلس کی سیاسی تاریخ میں کرن کمار ریڈی نے مجلس کو اس کا حقیقی مقام دکھاتے ہوئے اشتعال انگیز تقریر کے معاملہ میں فلور لیڈر کو جیل بھیج دیا تھا۔ جیل جانے سے بچانے کیلئے پارٹی صدر کے بشمول قائدین ایک سے زائد مرتبہ کانگریس قائدین کے در پر پہنچے لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ ٹی آر ایس کے ایک قائد نے انکشاف کیا کہ مقامی جماعت کے برادرس نے کئی مرتبہ چیف منسٹر کے سی آر سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور اپنے مسائل کو حل کرایا۔ کے سی آر کبھی بھی مقامی جماعت کے دفتر نہیں پہنچے جبکہ مجلس کے برادرس ایک سے زائد مرتبہ کے سی آر کی قیامگاہ اور دفتر پر ملاقات کے منتظر دیکھے گئے۔ ٹی آر ایس قائد کا یہ احساس ہے کہ کسی نہ کسی طرح ہر حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کے سی آر اس کا شکار نہیں ہوئے۔ اگر فلور لیڈر کے اس بیان کے باوجود ٹی آر ایس قائدین کی غیرت اور حمیت نہیں جاگی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ غرور و تکبر سے سرشار تقاریر میں اس طرح کے جملوں کی ادائیگی کو عوام پسند نہیں کر رہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر عوام کا کہنا ہے کہ اسمبلی انتخابات میں مقامی جماعت کو بعض حلقوں میں رائے دہندے ضرور سبق سکھائیں گے۔ انتخابی جلسوں میں بھڑکیلی تقاریر کرنے والے فلور لیڈر ان کے خلاف بی جے پی قائد راجہ سنگھ کے ریمارکس پر کیوں خاموش ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دونوں قائدین میں میچ فکسنگ ہو۔