غریبوں کیلئے فنکشن ہال کے اخراجات زائد بوجھ، 9 کروڑ کی منظوری، اسمبلی میں محمد محمود علی کا بیان
حیدرآباد۔ 29 مارچ (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے تیقن دیا کہ ایسے اسمبلی حلقہ جات جہاں مسلمانوں کی قابل لحاظ آبادی ہے وہاں اردو گھر و شادی خانے تعمیر کیے جائیں گے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ غریب خاندانوں کو شادی کے اخراجات سے زیادہ فنکشن ہال کے اخراجات کا بوجھ ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے شادی خانوں کی تعمیر سے غریبوں کو فائدہ ہوگا۔ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شہر کے ارکان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر نے تیقن دیا کہ حکومت اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی والے اسمبلی حلقہ جات میں شادی خانوں کی تعمیر کو ترجیح دیگی۔ انہوں نے بتایا کہ اردو گھر شادی خانہ اسکیم جاریہ اسکیم ہے اور حکومت نے مختلف علاقوں میں 54 اردو گھر شادی خانوں کی تعمیر کیلئے فنڈس جاری کیے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے بتایا کہ ضلع کلکٹرس نے منیجنگ کمیٹی تشکیل دی جس میں متعلقہ تحصیلدار کو ممبر کنوینر کی حیثیت سے مقرر کیا گیا ہے۔ علاقہ کے تین تا چار اہم مسلم شخصیتوں کو رکن کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔ کمیٹی شادی خانوں کی تعمیر کی نگرانی کریگی۔ ضلع کلکٹر نے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کو تعمیر کا کام حوالہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 54 شادی خانوں کیلئے 9.87 کروڑ گزشتہ سال جاری کیے گئے تھے جبکہ جاریہ سال 15 کروڑ روپئے مختص کیے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اردو اکیڈیمی کا بجٹ بڑھاکر 40 کروڑ کردیا ہے جس میں شادی خانوں کا بجٹ بھی شامل ہے۔ محمود علی نے بتایا کہ کانگریس دور حکومت میں اسکیم کیلئے 2 کروڑ 32 لاکھ خرچ کیے گئے تھے جبکہ ٹی آر ایس نے 9 کروڑ 87 لاکھ منظور کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 3 شادی خانوں کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور 13 کا کام جاری ہے۔ 37 ٹنڈر مرحلہ میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شادی مبارک اسکیم کیلئے بجٹ میں 200 کروڑ مختص کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ غریب لڑکیوں کی شادی کے سلسلہ میں ایک لاکھ 116 روپئے کی امداد کے باوجود شادی خانوں کے اخراجات سے غریب عوام پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی والے علاقوں میں تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے۔ بی جے پی رکن رام چندرا ریڈی نے حیدرآباد ، رنگاریڈی، میدک اور عادل آباد میں اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی کا ذکر کیا اور کہا کہ وہاں مزید شادی خانے منظور کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ خیریت آباد اسمبلی حلقہ میں چار علاقے ایسے ہیں جہاں اقلیتوں کی قابل لحاظ آبادی ہے وہاں شادی خانے تعمیر کیے جائیں۔ انہوں نے مشیر آباد اور عنبر پیٹ حلقوں میں بھی شادی خانوں کی منظوری کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غریبوں کو فنکشن ہال کے خرچ کیلئے قرض لینے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔