ہجوم کے تشدد پر روک ضروری

ملک کی 14 ریاستوں میں گذشتہ دو ماہ کے دوران نفرت پھیلانے والوں اور ہجوم کے زد و کوب سے مرنے والوں کی تعداد 29 ہوگئی ہے ۔ یہ اموات سنگین نوعیت کی ہیں ۔ ملک بھر میں نفرت اور فرقہ وارانہ ماحول کو بڑھاوا دینے والی طاقتوں کو کھلی چھوٹ دینے کے نتیجہ میں ہر گذرتے دن ملک کے کسی نہ کسی حصہ میں بے قصور انسان ہجوم کے ہاتھوں موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک مشرا نے ایک سماجی کارکن تحسین پونا والا کی جانب سے داخل کردہ ایک درخواست کی سماعت کرتے ہوئے احساس ظاہر کیا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانا ریاستوں کا فریضہ ہے ۔ درخواست گذارنے سپریم کورٹ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ریاستوں کو دئیے گئے عدالت عالیہ کے احکام کے باوجود ریاستیں نفرت پھیلانے والے گروپس اور ہجوم خاص کر گاؤ رکھشکوں کے تشدد کو روکنے میں ناکام ہوئی ہیں اور یہ گھناؤنے جرائم تشویش ناک حد تک جاری ہیں ۔ چیف جسٹس آف انڈیا کا احساس قابل قدر ہے کہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ ہر ایک ریاست انفرادی طور پر ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر کی برقراری کو یقینی بنائے ۔ ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ انسانوں کا قتل ایک منظم سازش کا حصہ ہے اس طرح کے واقعات کے لیے ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے تو دوبارہ ان واقعات کا اعادہ نہ ہوسکے گا ۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے مرکزی حکومت سے کہا کہ وہ آرٹیکل 256 کے تحت ایک اسکیم وضع کرے اور ریاستوں کو ہدایت جاری کرے کہ وہ لا اینڈ آرڈر کی برقراری کے ساتھ ایسے واقعات کو روکنے کے اقدام کریں ۔ ہجوم کو خاص کر گاؤ رکھشکوں کو کھلی چھوٹ ملنے اور پولیس کی سرپرستی حاصل ہونے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ بھیانک ہیں ۔ کسی خاص مذہب ، ذات اور فرقے کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ دستور کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے ۔ نفرت کا شکار ہونے والے متوفی افراد کے ارکان خاندان کو معاوضہ دینے کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ سپریم کورٹ کی توجہ اس جانب بھی دلائی گئی ۔ لہذا معاوضہ دینے کے لیے کسی مذہب یا ذات کا ہی مخصوص زمرہ نہیں بنایا جانا چاہئے ۔ گاؤ رکھشکوں یا گاؤ دہشت گردوں پر قانونی شکنجہ کسنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر حالات سدھرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے ۔ یہ واقعات عام تشدد کے واقعات سے ہٹ کر ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور انہیں خوف کے ماحول میں سانس لینے کے لیے مجبور کرنے کی سازش رچائی گئی ہے ۔ اگر چیف جسٹس آف انڈیا کے احساس کے مطابق ریاستی حکومتیں سختی سے عمل کریں تو تشدد کو روکا جاسکتا ہے ۔ ملک کے کسی شہری کو خوف کے سایہ میں زندہ رکھنے کی سازش ہورہی ہے تو ایسے متاثرین کا تحفظ کرنا قانون کی ذمہ داری ہے ۔ عصری ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سوشیل میڈیا ، واٹس ایپ پر نفرت پھیلانے کی مہم کو روکنا بھی لا اینڈ آرڈر کی برقراری کے ذمہ داروں کا فریضہ ہے ۔ جب سے مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت آئی ہے چار سال کے دوران ہجوم کے حملوں خاص کر گاؤ رکھشک کے نام پر سنگھ پریوار سے وابستہ افراد کے حملوں کے زائد از 78 واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ ایسے واقعات کو بربریت انگیز کہا جاسکتا ہے جن میں 39 بے گناہ انسانوں کی موت اور زائد از 273 زخمی ہوئے ہیں ۔ گاؤ رکھشکوں کا شکار صرف مسلمان ہی ہورہے ہیں اور ان کے بعد دلت بھی نشانہ بنائے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں اور دلتوں دونوں کو آر ایس ایس والے اس ملک کے لیے بوجھ سمجھتے ہیں اور اس طرز کی نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں ۔ آر ایس ایس نفرتوں کا بڑا ٹولہ ہے جس میں بی جے پی جیسی قومی حکمران پارٹی بھی شامل ہے جو برسوں سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پروپگنڈہ پھیلاتے رہی ہے ، اب اچانک نام نہاد گاؤ رکھشک کے جذبات کے ذریعہ نفرت کی آگ کے شعلے بھڑکائے جارہے ہیں ۔ ایسے میں سپریم کورٹ کی ریاستوں کو دی گئی ہدایت پر عمل ضروری ہے ۔