ہجومی تشدد پر مودی کا صرف بیان
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ ہجومی تشدد اور کسی فرد کو کسی بھی وجہ سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینا ایک جرم ہے چاہے اس کے مقاصد کچھ بھی رہے ہوں ۔ واضح رہے کہ ملک میں ہجومی تشدد کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خاص طور پر بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ہجوم بے قابو اور لا قانونیت کا شکار ہوتا جا رہا ہے اور کسی کو بھی کسی بھی شک و شبہ میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ حیرت کی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت ہو یا پھر ریاستی حکومتیں ہوں وہ ان واقعات یا جرائم کو روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کر رہی ہیں۔ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی تو دور کی بات ہے مرکزی وزرا اور دوسرے قائدین تو ان جرائم میں ملوث افراد کو عدالتوں سے ضمانت ملنے پر ان کی گلپوشی تک کر رہے ہیں جس سے گئو دہشت گردوںا ور دوسرے فاشسٹ و فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہونے کی بجائے اسے اپنے کارناموں کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور آئندہ بھی مزید واقعات میں ملوث رہنے کا امکان مسترد نہیں کر رہے ہیں۔ فاشسٹ اور فرقہ پرست عناصر بے گناہوں کے قتل کو ایک تمغہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں اور ان کی کئی گوشوں سے حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ گذشتہ سال بھی وزیر اعظم نریند رمودی نے گئو رکھشکوں کے تشدد پر تنقید کی تھی اورکہا تھا کہ غیر قانونی سرگرمیوںمیں ملوث عناصر رات کو کالے دھندے کرتے ہیں اور دن میں گئو رکھشک بن جاتے ہیں۔ اس وقت بھی نریندر مودی نے محض زبانی جمع خرچ سے کام لیا تھا اور اب بھی ایک انٹرویو میں انہوں نے اس تعلق سے صرف زبانی بیا ن بازی ہی کو ترجیح دی ہے ۔ انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ اگر یہ جرم ہے تو اس جرم کی روک تھام کیلئے حکومت کی جانب سے کیا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اب تک کئی ریاستوں میں مجرمین کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔
وزیر اعظم کو انٹرویو میں یہ بھی واضح کرنا چاہئے تھا کہ بے گناہوں کو قتل کرنے کے واقعات میں ملوث مجرمین کو سماج میں ہیرو کے طور پر کیوں پیش کیا جا رہا ہے اور جو مرکزی وزرا ان کی گلپوشی کر رہے ہیں انہیں کیوں ابھی تک کابینہ میں برقرار رکھا گیا ہے یا کم از کم ان کی اب تک سرزنش کیوں نہیں کی گئی ہے ۔ ہجومی تشدد آج کے دور کی ایک تلخ حقیقت بن گئی ہے اور فرقہ پرست عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے اس کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیںجس کا وہ آزادانہ طور پر استعمال کر رہے ہیں اور انہیں ایسی کسی بھی کارروائی پر قانون کے مطابق کسی طرح کی کارروائی کا بھی خوف نہیں رہ گیا ہے ۔ گذشتہ دنوں میڈیا رپورٹس میںواضح ہوگیا تھا کہ خود ملزمین ویڈیو پر اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے بے گناہوں کو قتل کیا ہے اور انہیں کسی کارروائی کا خوف نہیں ہے کیونکہ حکومت بھی ان کی ہے اور پولیس بھی ان کی ہے ۔ اس سے پولیس کے رول پر بھی جو سوال اٹھے ہیں ان کی بھی وضاحت ضروری ہے ۔ یقینی طور پر بیشتر معاملات میں سامنے آیا ہے کہ پولیس نے مجرمین کو سزائیں دلانے اور ان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانے کی بجائے خود تشدد کا نشانہ بننے والوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات درج کئے تھے ۔ پولیس اگر اس طرح کا رویہ اختیار کرتی ہے تو اس سے مجرمین کے حوصلے بلند ہونا فطری بات ہے ۔
اب جبکہ خود وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس حساس مسئلہ پر بیان بازی سے کام لیا ہے اور ہجومی تشدد کو ایک جرم قرار دیا ہے تو انہیں کم از کم اب بی جے پی کے اقتدار والی ان ریاستوں سے جواب طلب کرنا چاہئے جہاں مسلمانوں کو محض شک و شبہ میں قتل کردیا گیا ہے اور اسے ہجومی تشدد کا نام دیدیا گیا ہے ۔ کم از کم اب اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ جو لوگ ہجومی تشدد کا حصہ رہیں گے انہیں عدالتوں میں سخت مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جائے اور عدالتوں میںموثر پیروی کرتے ہوئے انہیں سزائیں دلانے کو یقینی بنایا جائے ۔ جو پولیس عہدیدار یا پھر تحقیقاتی ایجنسیاں ملزمین کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہیں ان سے جوابدہی ہونی چاہئے ۔ ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور مہارت کا جائزہ لیا جانا چاہئے ۔ جب تک اس طرح کے اقدامات نہیں ہوتے اس وقت تک چاہے وزیر اعظم ہی اس کو جرم قرار دیں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نظر نہیں آتی ۔