ہندوستان بھر میں ہجومی تشدد کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی ہے ۔ لوگ محض گائے کی منتقلی کے الزام یا شبہ میں یا گائے کا گوشت منتقل کرنے کے شبہ میں بے قصور افراد کی جانیں تک لینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ جانوروں کے تحفظ کے نام پر انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے میں عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور اس کی وجہ سے ملک کے دو اہم طبقات کے مابین نفرت اور اختلافات کی خلیج بڑھتی جار ہی ہے ۔ اس طرح کے واقعات حالانکہ دو ڈھائی سال قبل ہی شروع ہوئے تھے لیکن مرکز کی نریندرمودی حکومت اور ملک کی کئی ریاستوں میں قائم بی جے پی کی حکومتیں اس تعلق سے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں تھیں بلکہ حد تو یہ ہوگئی کہ ڈیجیٹل انڈیا مہم کو شدت سے آگے بڑھانے والی مودی حکومت کے پاس اب تک پیش آئے ہجومی تشدد کے واقعات کا کوئی ڈاٹا یا تفصیلات تک دستیاب نہیں ہیں۔ ایک سماجی جہد کار تحسین پونا والا نے جب اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکھٹایا تو عدالت نے حکومتوں کو ہدایات جاری کیں۔ عدالتی ہدایات کے باوجود ایسے واقعات کا تدارک نہیں ہوپایا تھا کیونکہ حکومتیں حرکت میں نہیں آئی تھیں۔ ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومتیں خود راست یا بالواسطہ طور پر ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ یہ شبہ اس لئے بھی تقویت پاتا ہے کہ ایک مرکزی وزیر نے ایسے مقدمہ میں عدالت سے ضمانت حاصل کرنے والے ملزمین کی گلپوشی کرتے ہوئے ان کی پیٹھ تھپتھپائی تھی ۔ عدالت کی پھٹکار کے بعد اب مرکزی حکومت شائد دکھاوے کیلئے ہی صحیح حرکت میں آئی ہے اور اس نے ہجومی تشدد سے نمٹنے کے امکانات کا جائزہ لینے مرکزی سکریٹریز کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے ایک وزارتی گروپ بھی تشکیل دیا ہے ۔ سکریٹریز کی کمیٹی نے ہجومی تشدد سے نمٹنے نئے قانون کی تیاری کے امکان پر غور کیا ہے ۔ اس طرح کا قانون ملک میں پیدا ہونے والے حالات کے اعتبار سے بہت ضروری ہے ۔
حالانکہ قانون سازی پر ابھی تو صرف غور کیا جا رہا ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر قانون بنابھی دیا جاتا ہے تو صرف قانون سازی سے ہجومی تشدد کی لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔ اس کیلئے حکومتوں کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہوگی ۔ ان عناصر کا پردہ فاش کرنا ہوگا جو نوجوانوں اور عوام کے ذہنوں میں نفرتوں کا زہر گھول رہے ہیں۔ نوجوانوں کو ترقی کے سفر میں آگے کرنے کی بجائے فرقہ پرستی کے ذریعہ گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ اس سے نہ صرف ملک میں بدامنی کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں بلکہ خود نوجوانوں کا مستقبل بھی داؤ پر لگادیا جا رہا ہے ۔ ایک ایسی ذہنیت کو ہوا دی جا رہی ہے جو سماج کے دو اہم طبقات کے مابین نفرت کو فروغ دینے میں یقین رکھتی ہے ۔ سماجی ہم آہنگی کے تانے بانے توڑے جا رہے ہیں۔ ہندو ۔ مسلم منافرت کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایسے منصوبوں اور عزائم کا حصہ معلوم ہوتا ہے جو ہندوستان کے حق میں ہرگز نہیں ہوسکتے ۔ ایک ایسی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے جس میں دو پڑوسی ایک دوسرے کے تعلق سے مشکوک ہوتے جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ اس ذہنیت کو ختم کیا جائے ۔ اس کو فروغ دینے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ ان کی سرکوبی کی جائے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچایا جائے ۔ اس کے بغیر قانون سازی کے ذریعہ بھی ہجومی تشدد کے واقعات کو روکنا شائد ممکن نہیں ہو پائے گا ۔
تاہم جس طرح سے مرکزی حکومت اور کئی ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں نے گئو رکھشا کے قانون بنائے ایسا لگتا ہے کہ ان قوانین میں گئو دہشت گردوں کو یہ اختیار دیدیا ہے کہ وہ قانون اپنے ہاتھ میںلیں اور کسی کو بھی کسی بھی الزام یا شبہ میں موت کے گھاٹ اتاردیں۔ اب تک جس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں ان میں بیشتر موقعوں پر حملہ آوروں پر مقدمات درج کرنے کی بجائے پولیس نے متاثرین کے خلاف گئو اسمگلنگ کے مقدمات درج کئے ہیں۔ یہ ایک طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور یہی وہ طریقہ کار ہے جس نے ایسے ماحول کو ہوا دی ہے جو ہندوستان کی ترقی کیلئے معاون نہیں ہوسکتا ۔ حکومتوں کو صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے قانون سازی تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کے ذمہ دار عناصر کو کیفر کردار تک پہونچانے کا بھی عزم کرنا ہوگا ۔