قانون کا نفاذ قانون کے رکھوالوں کا فریضہ ہوتا ہے ۔ کسی بھی ملک میں جب تک قانون پر سختی سے عمل آوری نہیں ہوتی تشدد ، غیر قانونی سرگرمیوں ، جرائم پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی بن جاتا ہے ۔ ہندوستان کے معاشرے میں حالیہ برسوں کے دوران نفرت کی سیاست اور غیر انسانی نفسیات کو ہوا دے کر ہجومی تشدد کا خطرناک کھیل شروع کیا گیا جس کوملک کی عدالت عظمیٰ سپریم کورٹ نے خطرناک رجحان قرار دیا اور پارلیمنٹ سے سفارش کی کہ وہ ہجومی تشدد کے قصور وار افراد کو سزائیں دینے کے لیے ایک علحدہ قانون بنائے ۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی زیر قیادت سپریم کورٹ بنچ نے ہندوستان میں ہجومی تشدد کو ہولناک حرکت قرار دیا اور احساس ظاہر کیا کہ انفرادی طور پر شہریوں کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ کوئی بھی ہجوم سڑکوں پر نکل کر از خود فیصلے کرنے کا مجاز نہیں ہوسکتا ۔ سپریم کورٹ نے صحیح وقت پر درست نشاندہی کرتے ہوئے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ ہجوم کے تشدد سے نمٹنے میں ناکام پولیس عہدیداروں کے خلاف فوری تادیبی کارروائی کرے اور جو پولیس عہدیدار اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کرنے میں ناکام ہو تو سخت و سنگین قدم اٹھانا ضروری ہے ۔ بلاشبہ ملک کی موجودہ صورتحال کے لیے وہ سیاسی طاقتیں ذمہ دار ہیں جو نفرت کے ذریعہ معاشرہ کو منقسم کرنے جارہے ہیں اور حکومت کے اختیارات بھی انہی لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جانے سے یہ غیر متوقع بات ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کو بروے کار لایا جائے گا ۔ہجومی تشدد کے واقعات کے ساتھ سختی سے نمٹنے کے لیے موجودہ قوانین ہی کو موثر طور پر روبہ عمل لایا جائے تو شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کو روکنے اور خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے علحدہ قانون کی سفارش کی ہے تو یہ ملک کی موجودہ سنگین صورت حال کا ثبوت ہے ۔ یہ فیصلہ نہایت سخت ترین لب و لہجہ پر مشتمل ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ عدالت نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ملک کی صورتحال نازک رخ اختیار کرتے جارہی ہے ۔
سپریم کورٹ کا اقدام قابل ستائش ہے جس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی قابل قدر بات ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرتے ہوئے ایک عظیم فیصلہ کیا ہے لیکن فیصلہ کے آخر میں پارلیمنٹ سے سفارش کرتے ہوئے نئے قانون سازی سے متعلق ہدایت دینا اس مسافر کی طرح ہے جو راہ بھٹک کر پھر وہیں پہونچ جاتا ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا ۔ حکومت اور پارلیمنٹ پر قانون کی ذمہ داری ڈالدینے کا مطلب سیاستدانوں کو من مانی کرنے کا ایک اور موقع دینا ہے ۔ مسئلہ جوں کا توں برقرار رہے گا ۔ سپریم کورٹ کے احساسات کی قدر کی جاتی ہے مگر اس کے احساس کے مطابق ملک کی اس کے احساس کے مطابق سالمیت ، یکجہتی اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں یہ حکومتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہیں ۔ تعصب پسندانہ ماحول کو ہوا دینے والے یہ سیاستداں ہی ہیں جنہوں نے دستور ، جمہوریت اور قانون کو یرغمال بناکر ہجومی تشدد جیسے واقعات کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ ملک میں یہ المناک واقعات معاشرہ کے اجتماعی کردار کو ہی مسخ کر چکے ہیں ۔ سیاسی تعصب نے نفرت کو بڑھاوا دیا ہے ۔ سیاسی دیانتداری کے فقدان نے ہی مسائل کو جنم دیا ہے ۔ موثر قانونی کارروائی اور منصفانہ تحقیقات کے فقدان نے ہی مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس کو پہلے سے زیادہ قوی بنادیا ہے ۔ داڑھی رکھنے والا مسلمان ، ٹوپی پہننے والا مسلمان اور گوشت کھانے والا مسلمان ہجومی تشدد کا شکار ہورہا ہے اور تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت ہجومی تشدد کے مرتکبین قابل سزا ہوسکتے ہیں تو ان کے لیے علحدہ قانون بنانے اور اس پر عمل آوری کی امید موہوم دکھائی دیتی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامہ میں یہ درست انداز میں نشاندہی کی کہ غیر قانونی طور پر ہجوم کا جمع ہونا اور تشدد برپا کر کے دیگر شہریوں کے لیے نفرت انگیز حرکتیں کرتا ہے تو ان پر قابو پانے کے لیے پولیس اور ریاستی حکومتیں ذمہ دار ہیں اور جواب دہ ہیں ۔ دفعہ 153A کے تحت ہی پولیس کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنائے مگر ایسا ہرگز نہیں ہورہا ہے جب پولیس اور قانون نفاذ کرنے والے ادارے ان دفعات کا موثر استعمال نہیں کررہے ہیں تو پھر اس طرح کے سنگین واقعات کو روکنے کے لیے صرف قانون سازی سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے ۔ سب سے افسوسناک کیفیت یہ ہے کہ عوام میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے ۔ حکومت اس صورتحال کا عمیق جائزہ لے کر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو وقت کی آواز تسلیم کرتے ہوئے معاشرہ کو مستحکم بنانے کی جانب کام کرے ۔