ہجومی تشدد ‘ سپریم کورٹ کی ہدایت

اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
ہجومی تشدد ‘ سپریم کورٹ کی ہدایت
ہجومی تشدد ہندوستان میں ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے ۔ ہر چند دن میں ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں کسی نہ کسی مقام پر بے گناہ افرادکو ہجوم اپنے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ کہیں گائے کشی کے نام پر تو کہیں مویشی کے سرقہ کے الزام میں یہ تشدد برپا ہو رہا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کی جانب سے اس ہجومی تشدد کے تعلق سے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کے باوجود مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے اس مسئلہ پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ۔ حکومتیں اس طرح کے واقعات پر اب تک بھی حرکت میں نہیں آئی ہیں اور اس صورتحال میںسپریم کورٹ نے حکومتوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ حرکت میںآئیںاور ہجومی تشدد کے سدباب اور اس کی روک تھام کیلئے اقدامات کریں۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں اپنی سابقہ رولنگ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ ہجومی تشدد کو روکنے کیلئے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے اقدامات کریں اور قانون سازی کی جائے ۔ آج سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور ملک کی تمام ریاستوںکو ہدایت دی ہے کہ وہ اندرون ایک ہفتہ وہ میکانزم پیش کریں۔ سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ نے مرکزی و ریاستی حکومتوں سے کہا کہ وہ مستقبل میں ہجومی تشدد کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کریں۔ نہ صرف اس کی روک تھام پر توجہ دی جائے بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جائے ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ پارلیمنٹ کو بھی اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جاسکے ۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات سے سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی شہری کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شخص اپنے طور پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری لے سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کی یہ ہدایت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور مرکزی حکومت اور ریاستوں کے انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اس ہدایت کو سمجھیں اور اس پر عمل آوری کو یقینی بنائیں۔
ہجومی تشدد ایک لعنت کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ اس کو ابھی تک روکنے میںحکومتوں کی جانب سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کے خلاف کسی طرح کی قرار واقعی سزائیں دی گئیں۔ حد تو یہ ہوگئی کہ حکومتوں کی جانب سے ہجومی تشدد کا شکار بننے والوں کے خلاف خود کارروائیاں کی گئیں۔ انہیں خود مقدمات میں پھانسا گیا اور ان کے لواحقین کو تحقیقات کے نام پر ہراساں و پریشان کیا گیا ۔ اس کی وجہ سے ہجومی تشدد میں ملوث رہنے اور بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کے حوصلے بلند ہوگئے ۔ حوصلے بلند ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ جو لوگ ایسے مقدمات میں جیلوں کو گئے تھے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد بی جے پی قائدین اور مرکزی وزرا کی جانب سے ان کی گل پوشی کی گئی اور ان کی پیٹ تھپتھپانے کا کام کیا گیا ۔ ایک طرح سے یہ ہجومی تشدد کی حوصلہ افزائی تھی جو یہ قائدین کر رہے تھے ۔ مرکزی وزرا ہوں یا ریاستی حکومتوں کے نمائندے ہوں کبھی بھی انہوں نے ہجومی تشدد کے خلاف کوئی بیان نہیںدیا اور حکومت کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے پاس ہجومی تشدد کا کوئی ریکارڈ یا ڈاٹا تک موجود نہیں ہے ۔ اس سے اس حساس ترین اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر حکومت کی عدم سنجیدگی اور لا پرواہی کا اظہار ہوتا ہے تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد حکومت کو لازما حرکت میں آنا پڑیگا اور کوئی کارروائی کرنی ہوگی ۔
مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں سب کو ایک رائے سے ایک ایسا سخت قانون بنانا چاہئے جس کے ذریعہ ہجومی تشدد پر قابو پانے میں مدد مل سکے ۔ عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا جاسکے اور اگر کہیں کوئی خلاف قانون کارروائی کرتا ہے تو اس کے خلاف ایسی کارروائی کی جائے کہ دوسروں کو عبرت ہو ۔ ہجومی تشدد میںملوث رہنے والوں کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ روکا جائے اور انہیں سماجی سطح پر بھی ان کے جرم کا احساس دلایا جائے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اور حکومتیںواقعی سنجیدگی کے ساتھ اس لعنت کا خاتمہ کرنے کا تہئیہ نہیں کرلیتیں اس وقت تک اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ اب سپریم کورٹ کی ہدایات کے بعد مرکزی و ریاستی حکومتوں کو خواب غفلت سے جاگنے اور ان ہدایات کی روشنی میںہجومی تشدد کو روکنے اور اس کا خاتمہ کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔