ہاتھی کے گلے میںڈھولک

ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کسی میراثی پر خوش ہوکر روپئے اور خلعت کے ساتھ اسے ایک ہاتھی بھی بخش دیا ۔ مہاراجہ نے تو بڑی فیاضی دکھائی ۔ مگر میراثی بہت گھبرایا کہ اسے روز دانہ چارہ کہاں سے کھلاوں گا اور خدمت کیلئے نوکر کہاں سے لاوں گا ۔ کچھ سوچنے کے بعد میراثی نے ایک ڈھولک ہاتھی کے گلے میں باندھ کر اسے کھلا چھوڑ دیا۔ ہاتھی جس طرح ہر روز قلعے کی ڈیوڑھی پر حاضر ہو تا تھا اب بھی سیدھا وہیں جاپہنچا ۔

لوگو ںنے جو یہ نیا تماشا دیکھا کہ ہاتھی جھٹ سے کان ہلاتا ہے اور ڈھولک خود بخود بجنے لگتی ہے تو اس کے ارد گرد بھیڑ لگ گئی۔ تھوڑی دیر میں غیل غپاڑہ سن کر مہاراج نے بھی کھڑکی سے سر نکالا اور ہاتھی کو پہچانتے ہی میراثی کو بلا کر پوچھا ۔ تم نے یہ کیا سو انگ بنا رکھا ہے۔میراثی نے عرض کی مہاراج! آپ جانتے ہیں ہم غریب اپنا پیٹ تو پال نہیں سکتے بھلا ہاتھی کا پیٹ کہاں سے بھریں گے؟ اس لئے جو ہنر خود جانتے تھے وہی اسے بتادیا ہے۔ یہ سن کر مہاراج ہنس پڑے ۔ ہاتھی کو فیلخانے بھیجوادیا اور میراثی کو خزانے سے اس کی قیمت دلوادی ۔