مرض سے متعلق بیداری کی ضرورت، ڈاکٹر دیپیکا سیرینینی کا ہیلت لکچر
حیدرآباد 5 اکٹوبر (سیاست نیوز) دماغ پر حملہ ہندوستان میں موت اور معذوری کیلئے دوسرا بڑا سبب ہے۔ اس کے باعث ہر سال تقریباً 6 ملین لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں جوکہ ملیریا، ایڈس اور ٹی بی کے باعث ہونے والی مجموعی اموات سے زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس کے بارے میں بیداری کا فقدان ہے۔ اس تعلق سے بیداری اس قدر کم ہے کہ زیادہ تر لوگ دماغ پر ہونے والے حملہ کو قلب پر حملہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات ڈاکٹر دیپیکا سیرینینی کنسلٹنٹ نیرو فزیشین اپولو ہاسپٹلس نے بتائی۔ وہ آج یہاں پبلک گارڈن واکرس اسوسی ایشن کے زیراہتمام اندرا پریہ درشنی آڈیٹوریم، پبلک گارڈن میں ’’دماغ پر حملہ سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر‘‘ کے زیرعنوان صحت عامہ لکچر دے رہی تھیں۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر این جی اوز ، حکومت، ہیلت آرگنائزیشنس سے ضروری توجہ حاصل نہیں ہوتی ہے۔ دماغ پر حملہ سے متعلق بیداری کے فقدان کے کئی ایک اسباب ہیں۔ زیادہ تر لوگ اسے عمر کے ساتھ ہونے والا ایک مرض سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ قابل علاج یا قابل تدارک نہیں ہے جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔ رسک فیاکٹرس میں اضافہ کے باعث 60 سال سے کم عمر والوں میں یہ مرض ایک وبائی مرض کے طور پر ہورہا ہے۔ اس کے جوکھم کو سمجھ کر احتیاطی تدابیر اور محفوظ دواؤں کے استعمال سے اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے اور یہ قابل علاج مرض ہے۔ دوران خون کی کمی کے باعث دماغ کے ایک حصہ کی کارکردگی رُک جاتی ہے۔ اس کی علامات یہ ہیں کہ اس میں بات کرنے میں اچانک دشواری ہوتی ہے، ہاتھ اور پیر کمزور ہوجاتے ہیں، چہرہ بدل جاتا ہے، دیکھنے میں اور کھڑے ہونے میں مشکل ہوتی ہے۔ اس مرض کے جوکھم عام طور پر ہائپر ٹینشن، ذیابیطس، موٹاپا، تمباکو نوشی وغیرہ ہیں۔ اس کو بلڈ پریشر کو معمول کی حد کے اندر رکھتے ہوئے روکا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں تین گھنٹوں کے اندر نیورولوجسٹ سے رجوع ہونا چاہئے کیونکہ پہلے تین گھنٹے بہت اہم ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر دیپیکا نے کہاکہ اس حملہ کے زیادہ تر مریض بروقت ہاسپٹلس نہیں پہونچتے ہیں کیونکہ اس کی علامات کو سمجھنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر پبلک گارڈن واکرس اسوسی ایشن کے چیرمین غلام یزدانی، ڈاکٹر پرشوتم داس جنرل سکریٹری، وشواناتھ اگروال جوائنٹ سکریٹری، پرمود کمار کیڈیا نائب صدر اور بی ایل پرساد جیسوال خازن، پروفیسر محمد مسعود احمد، ہیلت کیئر اڈوائزر، سوہن لال کیڈیا جوائنٹ سکریٹری اور دوسرے موجود تھے۔